مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ حرم مکہ کی حرمت کا بیان ۔ حدیث 1267

حرم مکہ میں قصاص اور حد جاری کرنے کا مسئلہ

راوی:

وعن أنس أن النبي صلى الله عليه و سلم دخل مكة يوم الفتح وعلى رأسه المغفر فلما نزعه جاء رجل وقال : إن ابن خطل متعلق بأستار الكعبة . فقال : " اقتله "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خود کو اتارا تو ایک شخص (یعنی فضل بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردہ کو پکڑے ہوئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو مار ڈالو۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
علامہ طیبی نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود پہن کر مکہ میں داخل ہونا حضرت امام شافعی کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ جو شخص نسک حج یا عمرہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو سکتا ہے ۔ لیکن حنفیہ کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ جو شخص (بشرطیکہ وہ آفاقی ہو) مکہ میں داخل ہونا چاہے خواہ وہ حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتا ہو یا کسی اور غرض سے مکہ جا رہا ہو تو وہ میقات سے احرام باندھے بغیر مکہ میں داخل نہ ہو۔ اس لئے شمنی کہتے ہیں کہ حنفیہ کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ کوئی شخص احرام باندھے بغیر میقات سے آگے نہ بڑھے۔ نیز یہ کہ احرام تو محص اس مقدس جگہ یعنی خانہ کعبہ کی تعظیم کے لئے باندھا جاتا ہے اس لئے چاہے کوئی حج یا عمرہ کے لئے مکہ جائے چاہے کسی اور غرض سے، اس کے لئے ضروری ہے کہ خانہ کعبہ کی تعظیم کے پیش نظر احرام کے بغیر مکہ میں داخل نہ ہو۔
اب رہی یہ بات کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام کے بغیر مکہ میں کیسے داخل ہوئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فتح مکہ کے دن اس خاص ساعت میں بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حلال ہو گیا تھا، چنانچہ اس کی تائید باب کی پہلی حدیث کے ان الفاظ ولم یحل لی الا ساعۃ من نہا (اور نہ میرے لئے حلال ہوا ہے علاوہ دن کی ایک ساعت کے ) سے ہوئی ہے۔
ابن خطل کے بارہ میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ مسلمان تھا مگر پھر مرتد ہو گیا تھا اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا ۔ جو اس کا خدمت گار تھا، نیز اس نے ایک پیشہ ور گانے والی لڑکی پال رکھی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور اسلام کے احکام و شعائر کی ہجو کرتی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔
اس بات سے حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی یہ استدلال کرتے ہیں کہ حرم مکہ میں قصاص اور حدود سزائیں جاری کرنا جائز ہے ، حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے، امام صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن خطل کے قتل کا حکم اس لئے دیا کہ وہ مرتد ہو گیا تھا، تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قصاص کے طور پر قتال کرایا تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اس کا قتل اس خاص ساعت میں ہوا ہو گا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے زمین حرم مباح کر دی گئی تھی۔

یہ حدیث شیئر کریں