احصار اور حج فوت ہوجانے کا مسئلہ
راوی:
وعن عائشة . قالت : دخل رسول الله صلى الله عليه و سلم على ضباعة بنت الزبير فقال لها : " لعلك أردت الحج ؟ " قالت : والله ما أجدني إلا وجعة . فقال لها : " حجي واشترطي وقولي : اللهم محلي حيث حبستني "
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حج کے لئے روانہ ہونے والے تھے تو اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیر کے ہاں تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا کہ شاید تم ہمارے ساتھ حج کا ارادہ رکھتی ہو؟ اور ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ تم ہمارے ساتھ حج کے لئے چلو، ضباعہ نے عرض کیا کہ جی ہاں، میرا ارادہ تو ہے لیکن اللہ کی قسم! میں اپنے کو بیمار پاتی ہوں یعنی مرض کی بناء پر میں بڑا ضعف محسوس کر رہی ہوں اگر میں چلتی ہوں تو نہیں جانتی کہ حج پورا بھی کر سکوں گی یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم حج کا ارادہ کر لو ، اور جب احرام باندھو تو یہ شرط کر لو یعنی یہ کہو کہ ۔ اللہم محلی حیث حبستنی۔ اے اللہ! میرے احرام سے نکلنے کی جگہ وہ ہے جہاں میں بیماری کے سبب روک دی جاؤں۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
میرے احرام سے نکلنے کی جگہ وہ ہے جہاں میں روک دی جاؤں، کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ مجھ پر مرض غالب ہو جائے اور وہاں سے میں خانہ کعبہ کی طرف آگے نہ چل سکوں اسی جگہ میں احرام کھول دوں گی۔
جن ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ احصار کی صرف ایک ہی صورت یعنی دشمن کا خوف ہے اور بیماری سے احصار نہیں ہوتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے کہ اگر مرض کی وجہ سے احرام کھول دینا مباح ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ضباعہ کو مذکورہ بالا شرط کرنے کا حکم نہ دیتے کیونکہ جب مرض کی وجہ سے احصار ہو ہی جاتا تو پھر شرط کا کیا فائدہ حاصل ہوتا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ احصار مرض کی وجہ سے بھی ہو جاتا ہے اس لئے وہ حضرت حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث کو اپنی دلیل قرار دیتے ہیں جو آگے آ رہی ہے، نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عمر شرط کے منکر تھے جو لوگ شرط کے قائل تھے ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرماتے تھے کہ کیا تمہارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کافی نہیں ہے؟ یعنی جب اس بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح حکم موجود ہے تو پھر شرط کو اختیار کرنے کا کیا معنیٰ۔ اب رہی یہ بات کہ جب مرض کی وجہ سے احرام کھول دینا مباح تھا تو پھر حضرت ضباعہ کو شرط کا حکم دینا کس مقصد سے تھا اور اس کا کیا فائدہ تھا؟ حنفیہ کہتے ہیں کہ ضباعہ کے حق میں شرط کا فائدہ یہ تھا کہ وہ احرام کی پابندیوں سے جلد آزاد ہو جائیں ، اس لئے کہ وہ اگر یہ شرط نہ کرتیں تو انہیں احرام سے نکلنے میں دیر لگتی بایں طور کہ جب ان کی ہدی کا جانور حرم پہنچ کر ذبح ہو جاتا تب ہی وہ احرام کھول سکتی تھیں، چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ محرم کے لئے احرام کھلونا اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک کہ اس کی ہدی حرم میں ذبح نہ ہو جائے۔ ہاں اگر وہ احرام باندھتے وقت یہ شرط کر لے کہ جس جگہ بھی مجھے احصار کی صورت پیش آ جائے گی میں وہیں احرام کھول دوں گا تو وہ محض احصار کی صورت پیش آ جانے پر، ہدی کا جانور ذبح ہوئے بغیر احرام سے باہر ہو سکتا ہے۔