حنفیہ کی مستدل حدیث
راوی:
وعن أبي قتادة أنه خرج مع رسول الله صلى الله عليه و سلم فتخلف مع بعض أصحابه وهم محرمون وهو غير محرم فرأوا حمارا وحشيا قبل أن يراه فلما رأوه تركوه حتى رآه أبو قتادة فركب فرسا له فسألهم أن يناولوه سوطه فأبوا فتناوله فحمل عليه فعقره ثم أكل فأكلوا فندموا فلما أدركوا رسول الله صلى الله عليه و سلم سألوه . قال : " هل معكم منه شيء ؟ " قالوا : معنا رجله فأخذها النبي صلى الله عليه و سلم فأكلها
وفي رواية لهما : فلما أتوا رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " أمنكم أحد أمره أن يحمل عليها ؟ أو أشار إليها ؟ " قالوا : لا قال : " فكلوا ما بقي من لحمها "
حضرت ابوقتادہ کے بارہ میں مروی ہے کہ وہ واقعہ حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے تو وہ اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے جو عمرہ کے لئے احرام باندھے ہوئے تھے لیکن خود ابوقتادہ حالت احرام میں نہیں تھے! چنانچہ راستہ میں ایک جگہ ان کے ساتھیوں نے گورخر دیکھا مگر ابوقتادہ کی نظر اس پر نہیں پڑی، ان کے ساتھیوں نے اس گورخر کو دیکھ کر صرف نظر کر لیا، آخر کار ابوقتادہ نے بھی اس گور خر کر دیکھ لیا اور اس کو شکار کرنے کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے اپنا چابک مانگا مگر انہوں نے اس وجہ سے کہ اس شکار میں ہماری اعانت کسی درجہ میں بھی شامل نہ ہو چابک دینے سے انکار کر دیا ابوقتادہ نے گھوڑے سے اتر کر خود چابک اٹھایا اور گورخر پر حملہ آور ہوئے یہاں تک کہ اسے مار لیا، پھر اس کے گوشت کو تیار کر کے خود انہوں نے بھی کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا، مگر ان کے ساتھی اس کا گوشت کھا کر پشیمان ہوئے کیونکہ انہوں نے گمان کیا کہ محرم کے لئے مطلق شکار کا گوشت کھانا درست نہیں ہے۔ چنانچہ جب وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا کہ آیا اس گورخر کا گوشت کھانا ہمارے لئے درست تھا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس کا پاؤں باقی رہ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پاؤں لیا اور اس کو تیار کرا کر کھایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہر فرمایا کہ اس کا گوشست کھانا تمہارے لئے درست تھا (بخاری و مسلم) بخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے بارہ میں مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے ابوقتادہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ گورخر پر حملہ آور ہوں یا تم میں سے کسی نے گورخر کی طرف اشارہ کر کے اس کے شکار پر متوجہ کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو پھر اس کے گوشت میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے کھا لو۔
تشریح
اس حدیث کے بارہ میں ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تو بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گورخر میں سے بچا ہوا پاؤں تیار کرا کر کھایا جب کہ ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھایا نہیں؟ لہٰذا اس اشکال کو دور کرنے کے لئے علماء ان دونوں روایتوں میں یہ مطابقت پیدا کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ خود حالت احرام میں تھے اس لئے ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ گمان کیا ہو گا کہ اس گورخر کے شکار میں کسی محرم کے حکم یا اس کی اعانت کو دخل رہا ہو گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھانے سے انکار کر دیا ہو گا مگر جب صحیح صورت حال سامنے آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہو گیا کہ اس کے شکار میں کسی محرم کے حکم یا اس کی اعانت کا کوئی دخل نہیں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھایا۔
محرم کے لئے جس طرح یہ ممنوع ہے کہ وہ شکار کے لئے کسی کو حکم دے اسی طرح دلالت اور اشارت بھی ممنوع ہے دلالت اور اشارت میں فرق یہ ہے کہ دلالت کا تعلق زبان سے ہوتا ہے مثلاً محرم کو کسی ہاتھ کے اشارہ سے شکار کی طرف متوجہ کرے! بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ دلالت کا تعلق اس شکار سے ہوتا ہے جو نظر کے سامنے نہ ہو اور اشارت کا تعلق اس شکار سے ہوتا ہے جو نظر کے سامنے ہو۔
اس موقع پر یہ بات جان لیجئے کہ محرم کے لئے تو دلالت حدود حرم میں بھی حرام اور حدود حرم سے باہر بھی لیکن غیر محرم کے لئے حدود حرم میں تو حرام ہے اور حدود حرم سے باہر نہیں۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محرم کو شکار کا گوشت کھانا حلال ہے بشرطیکہ وہ شکار نہ تو خود اس نے کیا ہو اور نہ اس شکار میں اس کی دلالت اشارت اور اعانت کا قطعا دخل ہو، چنانچہ یہ حدیث حنفیہ کے اس مسلک کی دلیل ہے اور ان حضرات کے مسلک کی تردید کرتی ہے جو محرم کو مطلق شکار کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں۔