مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان ۔ حدیث 1244

حالت احرام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکار سے اجتناب

راوی:

عن الصعب بن جثامة أنه أهدى رسول الله صلى الله عليه و سلم حمارا وحشيا وهو بالأبواء او بودان فرد عليه فلما رأى ما في وجهه قال : " إنا لم نرده عليك إلا أنا حرم "

حضرت صعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن جثامہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حمار وحشی (گورخر) بطور ہدی کے بھیجا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام ابواء یا ودان میں کہ جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے واپس کر دیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وجہ سے ان کے چہرہ پر غم و افسوس کے آثار محسوس کئے تو فرمایا کہ ہم نے تمہارا ہدیہ اس لئے واپس کر دیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
بظاہر یہ حدیث ان حضرات کی دلیل ہے جو مطلق شکار کا گوشت کھانے کو محرم کے لئے حرام قرار دیتے ہیں اور چونکہ حنفیہ کا مسلک جو باب کی ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت طلحہ بن عبیدا للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قول کے مطابق ہے اس لئے حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ زندہ گورخر بطور شکار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اور چونکہ شکار قبول کرنا محرم کے لئے درست نہیں ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے واپس کر دیا۔ لیکن پھر ایک اشکال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک روایت میں وضاحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ گورخر کا گوشت بھیجا گیا تھا، ایک روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ گورخر کی ران بھیجی گئی تھی، اسی طرح ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ اس کا ایک ٹکڑا بھیجا گیا تھا۔
لہٰذا ان روایتوں کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندہ گورخر نہیں بھیجا گیا تھا بلکہ یہاں حدیث میں بھی گورخر سے اس کا گوشت ہی مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں زندہ گورخر ہی بھیجا گیا ہو گا جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول نہیں کیا، پھر بعد میں دوسرے گورخر کی ران بھیجی گئی اسی کو کسی نے تو گوشت سے تعبیر کیا اور کسی نے اسے اس کا ٹکڑا کہا۔
اس بارہ میں حنفیہ کی بڑی دلیل یہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گورخر پیش کیا گیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام عرف میں تشریف فرما تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اسے رفقاء میں تقسیم کر دو۔ مذکورہ بالا حدیث کے بارہ میں شافعیہ یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گورخر کو اس گمان کی بناء پر واپس کر دیا کہ بطور خاص میرے لئے شکار کیا گیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں