ایام تشریق کی رمی جمرات میں تقدیم وتاخیر کا مسئلہ
راوی:
وعن أبي البداح بن عاصم بن عدي عن أبيه قال : رخص رسول الله صلى الله عليه و سلم لرعاء الإبل في البيتوتة : أن يرملوا يوم النحر ثم يجمعوا رمي يومين بعد يوم النحر فيرموه في أحدهما . رواه مالك والترمذي والنسائي وقال الترمذي : هذا حديث صحيح
حضرت ابوالبداح بن عاصم بن عدی (تابعی) اپنے والد مکرم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ چرانے والوں کو اجازت دے دی تھی کہ وہ منیٰ میں شب باشی نہ کریں اور یہ کہ نحر کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ پر) کنکریاں ماریں اور پھر دونوں کی رمی جمرات کو یوم نحر کے بعد ایک ساتھ کریں اس طرح دونوں دن کی رمی جمرات ان میں سے کسی ایک دن کریں۔ (مالک ، ترمذی، نسائی) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چرواہوں کو یہ اجازت عطا فرما دی تھی کہ وہ ایام تشریق کی راتوں میں منیٰ میں نہ رہیں کیونکہ وہ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کے چرانے وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں، نیز انہیں اس بات کی بھی اجازت دے دی کہ وہ صرف بقر عید کے دن جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اس کے بعد دوسرے دن یعنی گیارہویں کو رمی جمرات نہ کریں بلکہ تیسرے دن یعنی بارہویں کو دونوں دن کی ایک ساتھ رمی کریں اس طرح گیارہویں کی رمی تو بطور قضا ہو گی اور بارہویں کی ادا ہی ہو گی۔
اس بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ ائمہ کے نزدیک عید کے دوسرے دن کی رمی کی تقدیم جائز نہیں ہے یعنی اگر کوئی عید کے دوسرے دن یعنی گیارہویں کو اس دن کی رمی کے ساتھ تیسرے دن یعنی بارہویں کی رمی بھی کرے تو یہ درست نہیں ہو گا ہاں تاخیر درست ہے کہ دوسرے دن کی رمی بھی تیسرے دن کی رمی کے ساتھ کی جا سکتی ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔