مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ سر منڈانے کا بیان ۔ حدیث 1222

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رمی جمرات

راوی:

وعنها قالت
: أفاض رسول الله صلى الله عليه و سلم من آخر يومه حين صلى الظهر ثم رجع إلى منى فمكث بها ليالي أيام التشريق يرمي الجمرة إذا زالت الشمس كل جمرة بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة ويقف عند الأولى والثانية فيطيل القيام ويتضرع ويرمي الثالثة فلا يقف عندها . رواه أبو داود

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن آخری حصہ میں اس وقت فرض طواف کیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی اس کے بعد منیٰ میں واپس آ گئے اور منیٰ میں ایام تشریق (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخوں) کی راتیں بسر کیں، ان ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمروں پر اس وقت کنکریاں مارتے جب دوپہر ڈھل جاتی ہر جمرہ پر سات سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے اور پہلے دوسرے جمرہ (یعنی جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی ) دعا و اذکار کے لئے دیر تک ٹھہرتے اور اس وقت مختلف دعاؤں اور عرض حاجات کے لئے تضرع اختیار کرتے اور پھر جب تیسرے جمرہ یعنی جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارتے تو اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ (ابوداؤد)

تشریح
یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو ظہر کی نماز مکہ میں پڑھی منیٰ میں نہیں پڑھی تھی۔
فلا یقف عندہا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمرہ عقبہ کے پاس یا اس کے بعد ذکر و دعا نہیں کرتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح دعا و اذکار کے لئے جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی کے پاس دیر تک کھڑے رہتے تھے اس طرح دعا و اذکار کے لئے جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ وہاں چلتے چلتے ہی دعا وغیرہ کر لیا کرتے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں