قربانی کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تذکیر ونصیحت
راوی:
عن عمرو بن الأحوص قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول في حجة الوداع : " أي يوم هذا ؟ " قالوا : يوم النحر الأكبر . قال : " فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا ألا لا يجني جان على نفسه ولا يجني جان على ولده ولا مولود على والده ألا وإن الشيطان قد أيس أن يعبد في بلدكم هذا أبدا ولكن ستكون له طاعة فيما تحتقرون من أعمالكم فسيرضى به " . رواه ابن ماجه والترمذي وصححه
حضرت عمرو بن احوص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو صحابہ کو مخاطب کر تے ہوئے) فرمایا جانتے بھی ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں حج اکبر کا دن ہے۔ پھر آپ نے فرمایا یاد رکھو تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ، تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن اور تمہارے اس شہر میں ! خبردار! ظلم کرنے والا صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے یعنی جو شخص کسی پر ظلم کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہوتا ہے کہ وہی ماخوذ ہوتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ ظلم کوئی کرے اور پکڑا کوئی جائے یاد رکھو! کوئی ظالم اپنے بیٹے پر ظلم نہیں کرتا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ پر ظلم کرتا ہے، جان لو! شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس بات سے نا امید ہو گیا ہے کہ تمہارے اس شہر مکہ میں اس کی پرستش کی جائے۔ ہاں تمہارے ان اعمال میں شیطان کی فرمانبرداری ہو گی جنہیں تم حقیر سمجھو گے، چنانچہ وہ ان گناہوں سے خوش ہو گا جن کو تم حقیر سمجھو گے۔
تشریح
" حج اکبر" مطلق حج کو کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (واذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بریء من المشرکین ورسولہ)۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے دن عام لوگوں کے سامنے اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ، مشرکوں کو امن دینے سے دست بردار ہوتے ہیں۔
اور حج کو صفت اکبر کے ساتھ موصوف اس لئے کیا جاتا ہے کہ عمرہ حج اصغر کہلاتا ہے اس مناسبت سے حج کو حج اکبر سے موسوم کیا گیا۔ مشہور مفسر بیضاوی کہتے ہیں کہ یوم بقر عید یعنی دسویں ذی الحجہ کا دن یوم حج اکبر کہلاتا ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اسی دن حج مکمل ہوتا ہے بلکہ حج کے تمام بڑے بڑے افعال اسی دن میں ادا کئے جاتے ہیں چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع میں قربانی بقر عید کے دن جمرات کے قریب کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔
پچھلے صفحات میں اسی مضمون کی جو حدیث گزری ہے اس میں تو یہ ذکر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب صحابہ سے پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے جب کہ یہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے، بظاہر ان دونوں میں تضاد نظر آتا ہے حالانکہ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بعض صحابہ نے تو وہ جواب دیا ہو اور بعض نے یہ، لہٰذا جس راوی نے جو جواب سنا وہ ذکر کر دیا۔
فان دماء کم الخ (اور تمہارے خون الخ) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم لوگ اس مبارک دن اور اس مقدس شہر میں ایک دوسرے کا خون بہانے، ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے اور ایک دوسرے کی بے آبروئی کو حرام اور برا سمجھتے ہو اسی طرح یہ چیزیں ہر جگہ اور ہر وقت حرام وبری ہیں۔
" کوئی ظالم اپنے بیٹے پر ظلم نہیں کرتا الخ" زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ جملہ، نفی کو ظاہر کر رہا ہے یعنی اگر کسی کا بیٹا کسی پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا باپ کسی پر ظلم کرتا ہے تو وہ ایک دوسرے کے ظلم کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوتے، یہ نہیں ہوتا کہ کسی پر ظلم تو کرے بیٹا اور اس کی وجہ سے پکڑا جائے باپ، یا کسی پر ظلم کرے باپ اور اس کی وجہ سے پکڑا جائے بیٹا، بلکہ جو ظلم کرتا ہے وہی پکڑا جاتا ہے، چنانچہ یہ ارشاد گرامی اس آیت کی مانند ہے کہ ۔ (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 35۔فاطر : 18) ۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور یہ بات صرف باپ بیٹے ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے ظلم و جرم کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوتا۔
چنانچہ یہاں باپ بیٹے کو بطور خاص محض اس مقصد سے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ دونوں سب سے زیادہ قریبی اقرباء ہیں جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے فعل کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اس طرح یہ جملہ ماقبل کی عبارت لایجنی جان الخ ظلم کرنے والا صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے کی تاکید کے طور پر ہو گا۔
بعض شارحیں نے اس جملہ لایجنی الا علی نفسہ میں لفظ الا نقل نہیں کیا ہے اور لکھا ہے یہ جملہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی اس جملہ کے ذریعہ منع کیا جا رہا ہے کہ کوئی ظالم اپنے نفس پر ظلم نہ کرے جس سے مراد یہ ہے کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے کیونکہ جو شخص کسی پر ظلم کرتا ہے وہ درحقیقت اپنی جان پر ظلم کرتا ہے بایں طور کہ وہ کسی پر ظلم کر کے اپنے کو سزا اور عذاب کا مستحق بنا لیتا ہے۔
وان الشیطان قد ایس الخ کا مطلب یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس بات سے نا امید ہو گیا ہے کہ اس شہر مکہ میں غیر اللہ کی عبادت کے ذریعہ اس کی فرمانبرداری ہو۔ لہٰذا یہاں اب کبھی بھی کوئی شخص شیطان کے فریب میں آکر غیر اللہ کی عبادت و پرستش کھلم کھلا نہیں کرے گا۔ اس سے گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ مقدس شہر ہمیشہ کے لئے کفر و شرک کی غلاظت سے پاک کر دیا گیا ہے، اور اب کبھی بھی اس پاک سر زمین پر کسی غیر مسلم کو قدم رکھنے کی اجازت نہ ہو گی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی غیر مسلم چوری چھپے اس شہر میں آ جائے اور وہ خفیہ طور پر غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔
" ہاں تمہارے ان اعمال میں شیطان کی فرمانبرداری ہو گی" میں اعمال سے مراد گناہ کے اعمال ہیں جیسے ناحق قتل کرنا، کسی کا مال لوٹنا یا اسی قسم کے دوسرے اعمال بد اور صغیرہ گناہوں کو اہمیت نہ دینا۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ان اعمال بد میں مبتلا ہونے والا جب ان کو حقیر سمجھتا ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ ان اعمال سے اجتناب نہیں کرتا تو گویا وہ شیطان کی اطاعت کرتا ہے کیونکہ شیطان ان باتوں سے خوش ہوتا ہے اور پھر وہی اعمال بڑے فتنہ و فساد کا باعث بن جاتے ہیں۔