افعال حج میں تقدیم وتاخیر
راوی:
عن أسامة بن شريك قال : خرجت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم حاجا فكان الناس يأتونه فمن قائل : يا رسول الله سعيت قبل أن أطوف أو أخرت شيئا أو قدمت شيئا فكان يقول : " لا حرج إلا على رجل اقترض عرض مسلم وهو ظالم فذلك الذي حرج وهلك " . رواه أبو داود
حضرت اسامہ بن شریکرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ادائیگی حج کی سعادت حاصل ہوئی ہے چنانچہ حج کے دوران جو لوگ مسائل پوچھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتے تھے ، ان میں کوئی یہ کہتا کہ یا رسول اللہ! میں نے طواف کعبہ سے پہلے سعی کر لی ہے یا افعال منیٰ میں سے یہ کام میں نے پہلے کر لیا یا یہ کام میں نے بعد میں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے فرماتے کہ " اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، بلکہ گناہ اس شخص پر ہے جو ظالم ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان کی آبروریزی کرے پس یہ وہ شخص ہے جو گنہگار ہے اور ہلاک ہوا۔ (ابوداؤد)
تشریح
اگر احرام باندھنے اور طواف قدوم یا طواف نفل سے پہلے سعی کر لی جائے تو صحیح نہیں ہو گی یعنی طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ سعی ، احرام اور طواف کے بعد ہو خواہ نفل ہی طواف ہو۔
اس لئے " میں طوف کعبہ سے پہلے سعی کر لی ہے" کے بارہ میں یہ کہا جائے گا کہ سائل اگر آفاقی (یعنی غیر مکی ) تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے حج کے احرام اور طواف قدوم کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لی ہے۔ اور اگر سائل مکی تھا تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ " میں نے حج کے احرام اور طواف نفل کے بعد طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لی ہے" ۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر افعال منیٰ میں نادانستگی کی وجہ سے کوئی تقدیم و تاخیر ہو جائے تو کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، بلکہ دراصل گناہگار تو وہ شخص ہے جو از راہ ظلم و ایذاء رسانی ناحق کسی کی آبروریزی کرے مثلاً کسی کی اہانت کرے یا کسی کی غیبت کرے۔ گویا وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں رہا جو دین کی خاطر کسی کی آبروریزی کرے چنانچہ ایسا شخص گنہگار نہیں ہوتا۔