مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ سر منڈانے کا بیان ۔ حدیث 1203

افعال حج میں تقدیم وتاخیر

راوی:

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ قربانی کے دن منیٰ میں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (تقدیم و تاخیر کے سلسلسہ میں) مسائل دریافت کررہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں یہی فرماتے تھے کہ" کوئی حرج نہیں ہے "چنانچہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے شام ہونے کے بعد کنکریں ماری ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"کوئی حرج نہیں ہے۔"(بخاری)

تشریح
دوسرے ائمہ کا مسلک تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے دن کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب غروب ہو جائے تو اس پر دم واجب ہو گا، چنانچہ ان کے نزدیک حدیث میں " شام کے بعد" سے مراد " بعد عصر" ہے۔
حنفیہ کے ہاں اس بارہ میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ دسویں ذی الحجہ کو طلوع فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے کا وقت کنکریاں مارنے کے لئے وقت جواز ہے مگر اساء ۃ کے ساتھ، یعنی اگر کوئی شخص طلوع فجر کے بعد ہی کنکریاں مارے تو یہ جائز ہو جائے گا مگر یہ اچھا نہیں ہو گا۔ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک کا وقت، وقت مسنون ہے۔ زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کا وقت، وقت جواز ہے مگر بغیر اساء ۃ کے یعنی اگر کوئی شخص زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کے کسی حصہ میں کنکریاں مارے تو یہ جائز بھی ہو گا اور اس کے بارہ میں یہ بھی نہیں کہیں گے کہ اس نے اچھا نہیں کیا ۔ البتہ " وقت مسنون" کی سعادت اسے حاصل نہیں ہو گی۔ اور غروب آفتاب کے بعد یعنی رات کا وقت، وقت جواز ہے مگر کراہت کے ساتھ۔
مگر اتنی بات ذہن میں رہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص بلا عذر اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب بھی غروب ہو جائے اور پھر وہ رات میں کنکریاں مارے، چنانچہ اگر چرواہے یا ان کے مانند وہ لوگ جو کسی عذر کی بناء پر رات ہی میں کنکریاں مار سکتے ہوں تو ان کے حق میں کراہت نہیں ہے، البتہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ" کوئی حرج نہیں ہے" اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سائل کوئی چرواہا ہوگا جس نے " شام کے بعد" یعنی رات میں کنکریاں ماریں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارہ میں فرمایا کہ تم چونکہ دن میں کنکریاں مارنے سے معذور تھے اس لئے رات میں کنکریاں مارنے کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ نہیں۔
علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بلا عذر رمی کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ صبح ہو جائے تو وہ رمی کرے گا مگر اس پر بطور جزاء دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہو جائے گا، یہ حضرت امام اعظم کا قول ہے صاحبین کا اس سے اختلاف ہے۔
یوم نحر کے بعد کے دو دنوں یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں کنکریاں مارنے کا وقت مسنون زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے اور غروب آفتاب کے بعد سے فجر طلوع ہونے تک مکروہ ہے، لہٰذا فجر طلوع ہوتے ہی حضرت امام اعظم کے نزدیک وقت ادا ختم ہو جاتا ہے جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک وقت ادا طلوع فجر کے بعد بھی باقی رہتا ہے، گویا رمی کا وقت طلوع فجر کے بعد بالاتفاق باقی رہتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت کی رمی حضرت امام اعظم کے ہاں وقت قضا میں ہو گی اور صاحبین کے ہاں وقت ادا ہی میں! اور چوتھے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو آفتاب غروب ہوتے ہی متفقہ طور پر سب کے نزدیک رمی کا وقت ادا بھی فوت ہو جاتا ہے اور وقت قضا بھی ۔

یہ حدیث شیئر کریں