راستہ میں قریب المرگ ہوجانے والی ہدی کا مسئلہ
راوی:
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم ستة عشر بدنة مع رجل وأمره فيها . فقال : يا رسول الله كيف أصنع بما أبدع علي منها ؟ قال : " انحرها ثم اصبغ نعليها في دمها ثم اجعلها على صفحتها ولا تأكل منها أنت ولا أحد من أهل رفقتك " . رواه مسلم
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص (جس کا نام ناجیہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا) کے ہمراہ سولہ اونٹ مکہ روانہ کئے اور اس شخص کو ان اونٹوں کا محافظ بنایا (کہ نہ صرف ان اونٹوں کو حفاظت کے ساتھ لے جائے بلکہ مکہ پہنچ کر انہیں ذبح بھی کر دے) اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان میں سے جو (تھک جانے کی وجہ سے) نہ چل سکے (یا کمزوری وغیرہ کی بناء پر قریب المرگ ہو جائے) تو اس کو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اسے ذبح کر دینا اور پھر وہ دونوں جوتیاں (جو بطریق ہار اس کے گلے میں پڑی ہوں) اس کے خون میں رنگ کر ان کے نشان اس کے کوہان کے کنارہ پر لگا دینا اور اس کا گوشت نہ تم کھانا اور نہ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو کھانے دینا۔ (مسلم)
تشریح
جوتیوں کو خون میں رنگ کر اونٹ کے کوہان پر نشان لگا دینے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لئے فرمایا تاکہ راستہ چلنے والے یہ جان لیں کہ یہ ہدی ہے اس طرح اس کا گوشت جو فقراء و مساکین ہوں وہ تو کھا لیں اور اغنیاء اس سے اجتناب کریں کیونکہ اس کا گوشت کھانا اغنیاء پر حرام ہے۔
آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ہدایت فرما دی کہ اس اونٹ کو ذبح کر کے وہیں چھوڑ دینا، اس کا گوشت نہ تم خود کھانا اور نہ اپنے رفقاء سفر کو کھانے دینا خواہ فقراء و مساکین ہوں یا اغنیاء ان کو ہر حال میں ان کا گوشت کھانے سے منع اس لئے کیا کہ کہیں یہ لوگ اپنی ماندگی کا کوئی بہانہ کر کے اپنے کھانے کے لئے کوئی اونٹ ذبح نہ کر ڈالیں۔
اب یہ بات محل اشکال بن سکتی ہے کہ ایسی صورت میں کہ گوشت کھانے سے خود محافظ کو بھی منع کیا جا رہا ہے اور اس کے رفقاء قافلہ کو بھی ، تو پھر اس گوشت کا مصرف کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ اس طرح وہ گوشت یوں ہی ضائع ہو گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ وہ گوشت ضائع نہیں ہو گا بلکہ جہاں وہ اونٹ ذبح ہو گا وہاں آس پاس کے رہنے والے اسے اپنے استعمال میں لے آئیں گے، یا قافلے تو آتے جاتے ہی رہتے ہیں ان کے بعد جو قافلہ وہاں سے گزرے گا وہ اس سے فائدہ اٹھائے گا۔
بہرکیف راستے میں جو ہدی قریب المرگ ہو جائے اور اس کو ذبح کر دیا جائے تو اس کا حکم یہ ہے جو حدیث میں ذکر کیا گیا کہ اس کو گوشت اغنیاء اور اہل قافلہ کے لئے کھانا درست نہیں ہے لیکن اس بارہ میں فقہی تفصیل ہے جس کو ملتقی الابحر اور درمختار میں یوں نقل کیا گیا ہے کہ (١) اگر ہدی واجب ہو اور وہ راستہ میں قریب المرگ ہو جائے یا ایسی عیب دار ہو کہ اس کی قربانی جائز نہ ہوتی ہو تو اس کے بجائے دوسری ہدی روانہ کرے، اس پہلی ہدی کو چاہے تو ذبح کر کے خود کھا لے یا دوسروں کو کھلا دے یا اور جو چاہے کرے۔ (٢) اگر ہدی نفل ہو اور مرنے کے قریب ہو تو اس کو ذبح کر لے اور جوتیاں (جو بطور ہار اس کے گلے میں پڑی ہوں) اس کے خون میں رنگ کر اس کی گردن پر نشان کر دے اور اس کے گوشت میں سے نہ مالک کھائے اور نہ اغنیاء کھائیں۔ (٣) جو ہدی منزل مقصود پر پہنچ کر ذبح ہو اس کے بارہ میں اسی فصل کی آخری حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے کہ نفل تمتع اور قران کی ہدی اور قربانی کے گوشت میں سے مالک کو کھانا مستحب ہے ۔ ان کے علاوہ دوسرے قسم کی ہدی کے گوشت میں سے مالک کو کھانا درست نہیں ہے۔
آخر میں ایک بات اور جان لیجئے کہ مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں بعض شارحین سے کچھ چوک ہو گئی ہے کیوں کہ انہوں نے لکھا ہے کہ حدیث میں گوشت نہ کھانے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس ہدی سے متعلق ہے جسے اپنے اوپر واجب کیا گیا ہو جیسے نذر کی ہدی اور اگر ہدی نفل ہو تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے، لہٰذا ان شارحین سے راستہ کی اس ہدی کو منزل مقصود پر پہنچ کر ذبح ہونے والی ہدی پر قیاس کر کے یہ بات لکھ دی ہے حالانکہ یہ بات حدیث کے منشاء و حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔