امام شافعی کی مستدل حدیث اور اس کی تاویل
راوی:
وعن عائشة قالت : أرسل النبي صلى الله عليه و سلم بأم سلمة ليلة النحر فرمت الجمرة قبل الفجر ثم مضت فأفاضت وكان ذلك اليوم اليوم الذي يكون رسول الله صلى الله عليه و سلم عندها . رواه أبو داود
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بقر عید کی رات میں (مزدلفہ سے منیٰ) بھیج دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے (وہاں پہنچ کر) فجر سے پہلے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اور پھر وہاں سے (مکہ) آئیں اور طواف افاضہ ( جو فرض ہے) کیا اور یہ وہ دن تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تھے یعنی یہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کا دن تھا۔ (ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ میں دراصل اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس رات میں منیٰ کیوں بھیجا، انہوں نے رات میں رمی کیوں کی اور دن ہی میں طواف افاضہ سے فارغ کیوں ہو گئیں جب کہ دیگر ازواج مطہرات نے اگلی رات میں طواف افاضہ کیا؟
حضرت امام شافعی فجر سے پہلے رمی جمرہ کے جواز کے لئے اس حدیث کو دلیل قرار دیتے ہیں اگرچہ افضل فجر کے بعد ہے حضرت امام شافعی کے علاوہ دیگر علماء اس حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ سہولت و رعایت ہے جو صرف حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی گئی تھی دوسروں کے لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی مذکورہ بالا روایت کے پیش نظر فجر سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں فجر سے مراد نماز فجر ہو کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نماز فجر سے پہلے اور طلوع فجر کے بعد رمی کی۔