آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اپنے وصال کی اطلاع
راوی:
وعن جابر قال : أفاض النبي صلى الله عليه و سلم من جمع وعليه السكينة وأمرهم بالسكينة وأوضع في وادي محسر وأمرهم أن يرموا بمثل حصى الخذف وقال : " لعلي لا أراكم بعد عامي هذا " . لم أجد هذا الحديث في الصحيحين إلا في جامع الترمذي مع تقديم وتأخير
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منیٰ کے لئے) مزدلفہ سے چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفتار میں سکون و وقار تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو بھی سکون و اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ ہاں میدان محسر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی کو تیز رفتاری کے ساتھ گزارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ خذف کی کنکریوں جیسی (یعنی چنے کی برابر) سات کنکریوں سے رمی کریں، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) یہ بھی فرمایا کہ شاید اس سال کے بعد میں تمہیں نہیں دیکھوں گا۔ (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ ) میں نے یہ حدیث بخاری و مسلم میں تو پائی نہیں۔ ہاں ترمذی میں یہ حدیث کچھ تقدیم و تاخیر کے ساتھ مذکور ہے۔
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سال میری دنیاوی زندگی کا آخری سال ہے ، آئندہ سال میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا، اس لئے تم لوگ مجھ سے دین کے احکام اور حج کے مسائل سیکھ لو۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کہ اسی حج کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کے احکام پورے طور پر لوگوں تک پہنچا دئیے اور اپنے صحابہ کو رخصت و وداع کیا، پھر اگلے سال یعنی بارہ ہجری کے ماہ ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا۔
صاحب مشکوۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے اس حدیث کو پہلی فصل میں نقل کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیحین یعنی بخاری و مسلم کی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ترمذی کی روایت ہے ۔ اس لئے صاحب مصابیح کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس روایت کو پہلی فصل کی بجائے دوسری فصل میں نقل کرتے۔ اگرچہ اس صورت میں تقدیم و تاخیر کا اعتراض پھر بھی باقی رہتا۔