عرفات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی
راوی:
وعن ابن عباس أنه دفع مع النبي صلى الله عليه و سلم يوم عرفة فسمع النبي صلى الله عليه و سلم وراءه زجرا شديدا وضربا للإبل فأشار بسوطه إليهم وقال : " يا أيها الناس عليكم بالسكينة فإن البر ليس بالإيضاع " . رواه البخاري
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ عرفہ کے دن (عرفات سے منی کی طرف) واپسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے چنانچہ (ان کا بیان ہے کہ راستہ میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیچھے (بلند آوازوں کے ساتھ جانوروں کو ہانکنے اور اونٹوں کو مارنے کا ) شور و شغب سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا (تاکہ لوگ متوجہ ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنیں) اور فرمایا " لوگوں! آرام و اطمینان کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ (بخاری)
تشریح
" دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے" کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اپنی سواری کو دوڑانے ہی میں نہیں ہے بلکہ نیکی کا اصل تعلق افعال حج کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب و پرہیز سے ہے، حاصل یہ ہے کہ نیکیوں کی طرف جلدی و مسابقت، اگرچہ پسندیدہ اور اچھی چیز ہے لیکن ایسی جلدی و مسابقت پسندیدہ نہیں ہے جو مکروہات تک پہنچا دے اور جس پر گناہ کا ترتب ہو۔ اس مفہوم کی روشنی میں اس حدیث میں اس پہلی حدیث میں منافات اور کوئی تضاد نہیں ہو گا۔