مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ وقوف عرفات کا بیان ۔ حدیث 1137

عرفہ کے دن تکبیر وتلبیہ کا مسئلہ

راوی:

عن محمد بن أبي بكر الثقفي أنه سأل أنس بن مالك وهما غاديان من منى إلى عرفة : كيف كنتم تصنعون في هذا اليوم مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فقال : كان يهل منا المهل فلا ينكر عليه ويكبر المكبر منا فلا ينكر عليه

حضرت محمد بن ابوبکر ثقفی (تابعی) کے بارہ میں منقول ہے انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جب کہ وہ دونوں صبح کے وقت منی سے عرفات جا رہے تھے، کہ آپ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس عرفہ کے دن کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم میں سے لبیک کہنے والا لبیک کہا کرتا تھا اور اس کو اس سے منع نہیں کیا جاتا تھا اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہا کرتا تھا اور اس کو اس سے منع نہیں کیا جاتا تھا۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
علامہ طیبی کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن حاجیوں کو تکبیر کہنی جائز تو ہے جیسا کہ اور اذکار جائز ہیں لیکن سنت نہیں ہے بلکہ اس دن ان کے لئے سنت تلبیہ میں مصروف رہنا ہے جب تک کہ وہ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ نہ ہو جائیں۔
یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ عرفہ کی صبح سے ایام تشریق کے آخر یعنی ذی الحجہ کی تیرھویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز پڑھنے والے کے لئے خواہ حج میں ہو یا حج کے علاوہ ہو، تکبیر کہنی واجب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں