بوسہ دیتے ہوئے حجر اسود سے حضرت عمر کا خطاب
راوی:
وعن عابس بن ربيعة قال : رأيت عمر يقبل الحجر ويقول : وإني لأعلم أنك حجر ما تنفع ولا تضر ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقبل ما قبلتك
حضرت عابس بن ربیعہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور اس کے سامنے یہ فرماتے تھے کہ اس میں کوئی شک نہیں میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں کبھی بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد اس اعتقادی و عملی گمراہی کو روکنے کے لئے تھا کہ کہیں بعض نو مسلم اس پتھر کو پوجنے ہی نہ لگیں ، چنانچہ اس ارشاد سے آپ کی مراد یہی تھی کہ یہ پتھر بذات خود نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے، اگر اس کی ذات سے کوئی نفع پہنچتا ہے تو صرف اسی حد تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں اس کو چومنے سے ثواب ملتا ہے۔