نماز وطواف میں مماثلت
راوی:
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " الطواف حول البيت مثل الصلاة إلا أنكم تتكلمون فيه فمن تكلم فيه فلا يتكلمن إلا بخير " . رواه الترمذي والنسائي والدارمي وذكر الترمذي جماعة وقفوه على ابن عباس
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنا نماز کی مانند ہے اگرچہ تم اس میں کلام کرتے ہو، لہٰذا جو شخص طواف میں کلام کرے تو وہ لغو لا یعنی اور تغیر پسندیدہ کلام نہ ہو بلکہ نیک کلام ہی کرے۔ (ترمذی، نسائی ، دارمی) اور امام ترمذی نے ذکر کیا ہے کہ کچھ لوگ اس روایت کو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر موقوف کرتے ہیں (یعنی یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ارشاد ہے )
تشریح
نماز و طواف میں مماثلت کا تعلق ثواب سے ہے کہ جیسے نماز کا ثواب بہت زیادہ ہے ویسے ہی خانہ کعبہ کا طواف بھی کثیر ثواب حاصل ہے۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ جس طرح نماز میں بات چیت اور کلام مفسد ہے ۔ اس طرح طواف میں کلام مفسد نہیں ہے۔ لہٰذا حدیث کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ کلام اور جو چیزیں کہ کلام کے حکم میں آتی ہیں جیسے کھانا پینا اور افعال کثیرہ وغیرہ طواف کے لئے مفسد نہیں ہیں۔
حدیث کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ نماز اور طواف دونوں یکساں ہیں کیونکہ ایک فرق تو خود حدیث نے بتا دیا ہے اس کے علاوہ بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو دونوں کے ظاہری فرق کو واضح کرتی ہیں، مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ جس طرح نماز میں استقبال قبلہ اور وقت شرط ہے اسی طرح طواف میں قبلہ رو ہونا اور کسی خاص وقت کا متعین ہونا شرط نہیں ہے۔
اسی طرح نماز کی اور شرطیں جیسے طہارت حقیقیہ اور حکمیہ اور ستر کا چھپا ہونا ، اگرچہ امام شافعی کے نزدیک طواف کے لئے اسی درجہ میں ہیں جس درجہ میں نماز کے لئے ہیں یعنی جس طرح یہ چیزیں نماز کی شرائط میں سے ہیں کہ ان کے بغیر نماز اداء ہی نہیں ہوتی اسی طرح طواف کے لئے بھی شرط ہیں لیکن حنفیہ کے ہاں یہ چیزیں طواف کے لئے صرف واجب کے درجہ میں ہیں شرط نہیں۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ طواف کرنا نماز کی مانند ہے، سے یہ لازم نہیں آتا کہ طواف بعینہ نماز کے درجہ کا عمل ہو جائے، بلکہ طواف کو نماز کی مانند کہنا خود اس طرف اشار کرتا ہے کہ نماز طواف سے افضل ہے ۔