مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ حجۃ الوداع کے واقعہ کا بیان ۔ حدیث 1103

تبدیل احرام کے حکم پر صحابہ کا تردد وتامل

راوی:

عن عطاء قال : سمعت جابر بن عبد الله في ناس معي قال : أهللنا أصحاب محمد بالحج خالصا وحده قال عطاء : قال جابر : فقدم النبي صلى الله عليه و سلم صبح رابعة مضت من ذي الحجة فأمرنا أن نحل قال عطاء : قال : " حلوا وأصيبوا النساء " . قال عطاء : ولم يعزم عليهم ولكن أحلهن لهم فقلنا لما لم يكن بيننا وبين عرفة إلا خمس أمرنا أن نفضي إلى نسائنا فنأتي عرفة تقطر مذاكيرنا المني . قال : " قد علمتم أني أتقاكم لله وأصدقكم وأبركم ولولا هديي لحللت كما تحلون ولو استقبلت من أمري ما استدبرت لم اسق الهدي فحلوا " فحللنا وسمعنا وأطعنا قال عطاء : قال جابر : فقدم علي من سعايته فقال : بم أهللت ؟ قال بما أهل به النبي صلى الله عليه و سلم فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " فأهد وامكث حراما " قال : وأهدى له علي هديا فقال سراقة بن مالك بن جعشم : يا رسول الله ألعامنا هذا أم لابد ؟ قال : " لأبد " . رواه مسلم

حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کتنے ہی آدمیوں کے ساتھ کہ جو میرے ساتھ شریک مجلس تھے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہم (صحابہ رضی اللہ عنہم) نے ) بغیر عمرہ کی شمولیت کے ) خالص حج کا احرام باندھا۔ عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو (مکہ) میں پہنچے تو ہمیں حکم دیا کہ ہم احرام کھول دیں۔ حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ احرام کھول دو۔ اور عورتوں کے پاس جاؤ (یعنی ان سے مقاربت بھی کرو) نیز عطاء کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کی مقاربت کو واجب نہیں کیا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف عورتوں کو ان کے لئے حلال کر دیا تھا (یعنی احرام کھول دینے کا حکم تو وجوب کے طور پر تھا البہ صحبت و مجامعت کا حکم صرف اباحت و جواز کی صورت میں تھا) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم سن کر تعجب کے ساتھ کہنے لگے کہ جب کہ ہمارے اور عرفہ کے دن کے درمیان صرف پانچ راتیں باقی رہ گئی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دے دیا کہ ہم اپنی عورتوں سے مجامعت کریں (یہ تو بڑی عجیب بات ہو گی کہ ) ہم میدان عرفات میں اس طرح جائیں کہ ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپکتی ہو (یعنی رات کو ہم جماع کریں اور صبح کو عرفات میں پہنچ جائیں، اس بات کو ایام جاہلیت میں بہت برا سمجھا جاتا تھا کہ عورتوں سے مجامعت اور حج میں اتنا قرب ہو جائے بلکہ اس چیز کو حج میں نقصان کا باعث جانتے تھے) عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ان کا ہاتھ کا اشارہ اور اپنے ہاتھ کو ہلانا گویا اب بھی میری نظروں میں پھر رہا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کو جب ہمارے اس تردد و تامل کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہمارے درمیان (خطبہ کے لئے ) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری بہ نسبت اللہ سے زیادہ ڈرتا ہوں۔ تم سے زیادہ سچا اور تم میں سب سے زیادہ نیکو کار ہوں۔ اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور ہوتا تو میں بھی تمہاری طرح احرام کھول دیتا جس طرح تم احرام کھولو گے، اور اگر مجھے میری یہ بات پہلے سے معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا (یعنی اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ احرام کھولنا تم پر شاق گزرے گا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور میں بھی احرام کھول دیتا ) تم (بلا تامل ) احرام کھول دو۔ چنانچہ ہم نے احرام کھول دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کو سنا اور اطاعت کی۔ عطاء کا بیان ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے کام پر آئے (یعنی وہ یمن قاضی ہو کر گئے تھے جب وہاں سے آئے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ جس چیز کا احرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باندھا ہے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ (نحر کے دن) قربانی کا جانور ذبح کرو (کہ یہ قارن پر واجب ہے) اور حالت احرام کو برقرار رکھو (یعنی میری طرح اب تم بھی احرام باندھے رکھو) چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یا خود اپنے لئے قربانی کا جانور لے کر آئے سراقہ بن مالک بن جعشم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ (یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کا جواز) صرف اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہمیشہ کے لئے۔ (مسلم)
تشریح : " ہم نے خالص حج کا احرام باندھا " حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات اپنے خیال و گمان کے مطابق کہی ورنہ تو جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے حضرت عائشہ کی روایت سے یہ معلوم ہی ہو چکا ہے کہ بعض صحابہ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض نے صرف حج کا اور بعض نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا۔
" حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کا مطلب یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر عضو مخصوص سے قطرات ٹپکنے کی طرف اشارہ کیا۔ یا یہ کہ انہوں نے عضو مخصوص کی حرکت کو ہاتھ کی حرکت سے تشبیہ دی۔ بہر کیف یہ اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ بات کرتے ہوئے اعضاء کے اشاروں سے وضاحت کرتے تھے تاکہ مفہوم اچھی طرح واضح اور ذہن نشین ہو جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں