مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان ۔ حدیث 1085

تلبیہ کب کیا جائے

راوی:

وعنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أدخل رجله في الغرز واستوت به ناقته قائمة أهل من عند مسجد ذي الحليفة

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے پاؤں رکاب میں ڈالے اور اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب تلبیہ کیا (یعنی بآواز بلند لبیک کہی) (بخاری ومسلم)

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر رخت سفر باندھا اور ظہر کی نماز مدینہ میں پڑھ کر روانہ ہوئے۔ عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی جو اہل مدینہ کے لئے میقات ہے رات وہیں گزاری اور پھر صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام باندھا۔
اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اور اونٹ کے کھڑے ہو جانے کے بعد لبیک کہی جب ایک دوسری روایت میں یہ منقول ہے کہ احرام کے لئے بہ نیت نفل دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد لبیک کہی نیز ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیداء پہنچ کر جو ایک بلند جگہ کا نام ہے لبیک کہی اس طرح لبیک کہنے کے وقت کے سلسلہ میں تین طرح کی روایتیں منقول ہیں ۔ چنانچہ حضرت امام شافعی نے تو پہلی روایت پر کہ جو یہاں نقل کی گئی ہے عمل کرتے ہوئے کہا کہ اونٹ پر (یا جو بھی سواری ہو اس پر) بیٹھ کر لبیک کہی جائے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد نے دوسری روایت کو اختیار کیا ہے۔ لہٰذا ان تینوں ائمہ کے ہاں مستحب یہ ہے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھنے کے بعد احرام کی نیت کی جائے اور پھر وہیں مصلیٰ پر بیٹھے ہی ہوئے لبیک کہے تو یہ جائز ہے لیکن نماز کے بعد ہی لبیک کہنا افضل ہے۔
اب ان تینوں روایتوں کے تضاد کو اس تطبیق کے ساتھ دور کیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھ کر مصلےٰ پر بیٹھے ہوئے لبیک کہی پھر جب اونٹنی پر بیٹھے تو اس وقت بھی لبیک کہی اور اس کے بعد جب مقام بیداء پر پہنچے تو وہاں بھی لبیک کہی چنانچہ علماء نے اسی لئے لکھا ہے کہ حالت وقت اور جگہ کے تغیرات کے وقت لبیک کی تکرار مستحب ہے۔
بہر کیف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح تین مرتبہ لبیک کہی اور جس راوی نے جہاں لبیک کہتے سنا وہ یہ سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہیں سے لبیک کہنی شروع کی ہے اس لئے ہر ایک راوی نے اپنے سننے کے مطابق ذکر کر دیا۔ اس تطبیق و توجیہ کی بنیاد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی وہ روایت ہے جسے شیخ عبدالحق نے اشعۃ اللمعات میں شرح کتاب خرقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں