مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ افعال حج کا بیان ۔ حدیث 1081

مدینہ منورہ :

راوی:

مدینہ منورہ
مکہ مکرمہ سے بجانب شمال تقریبا دو سو ستر میل (چار سو بتیس کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع اس کے مغربی جانب سو سو میل (سو کلو میٹر ) کے فاصلہ پر سمندر اور اس علاقہ کا مشہور بندرگاہ ینبوع ہے۔ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ اور شام کے درمیان راستہ کے تقریبا وسط پر واقع ہے اس کا طول البلد ساڑھے انتالیس درجہ مشرقی اور عرض البلد چوبیس درجہ شمالی ہے۔
جب اللہ کے نام لیواؤں پر مکہ کی زمین تنگ ہوئی اور کفار مکہ کی خطرناک انتقامی کاروائیوں، ایذاء رسانیوں اور سازشوں کی وجہ سے تبلیغ اسلام میں رکاوٹ اور مسلمانوں کی جان و آبرو کے لالے پڑ گئے تو اللہ کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا اور خود بھی مکہ چھوڑ کر مدینہ آ گئے اس طرح اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا مرکز مدینہ منورہ منتقل ہو گیا اور پھر اسی سر زمین سے اسلام کی روشنی عرب کی حدود سے نکل کر پوری دنیا میں پہنچی ۔
آپ کی تشریف آوری سے قبل اس شہر کا نام " یثرب" تھا یہاں قدیم زمانہ میں عمارز اور دوسری قومیں رہ چکی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام بدل دیا اور پھر اسے مدینۃ الرسول یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شہر کہا جانے لگا۔ اس کے علاوہ ۔ طابہ، طیبہ، طائبہ ، ارض اللہ، دارالہجرۃ ۔ بیت رسول اللہ۔ حرم رسول اللہ۔ محبوبہ۔ حسنہ وغیرہ بھی نام احادیث وغیرہ میں آتے ہیں لیکن سب سے زیادہ مشہور اور متعارف نام مدینہ ہے۔
مدینہ منورہ مکہ مکرمہ کے برعکس سرسبزوشاداب اور ایک زراعتی شہر ہے۔ مغربی جانب کے علاوہ اس کے دوسرے اطراف میں باغات بکثرت ملتے ہیں جن میں کھجور، انگور انار سیب اور دوسرے پھل کافی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی زمینوں میں کھیتی باڑی کی جاتی ہے مدینہ کی آب و ہوا مکہ کی آب و ہوا کے مقابلہ میں معتدل ہے ایک تو وجہ یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کی طرح پہاڑیوں سے گھرا ہوا نہیں ہے دوسرے یہ کہ اس کو مختلف سمتوں سے باغات نے گھیر رکھا ہے تیسرے یہ کہ شہر سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ بلند ہے یہاں جاڑا اور گرمی دونوں سخت ہوتے ہیں۔ یہ شہر ایک صحت پرور شہر سمجھا جاتا ہے منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو اس وقت یہاں کی آب و ہوا نہایت ناقص اور خراب تھی اکثر وبائی بیماریاں ہوتی رہتی تھیں چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں آتے ہی سخت بیمار ہو گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شہر کی آب و ہوا کی اصلاح اور درستی کے لئے دعا مانگی اور آپ کی دعا قبول ہوئی۔
مدینہ کی مشرقی جانب حرۃ الواقم اور مغربی جانب " حرۃ الوبرہ" نامی پہاڑ ہیں۔ شمالی جانب " جبل احد" ہے جس کے پاس احد کا معرکہ پیش آیا تھا اور وہاں متعدد صحابہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبریں ہیں یہ پہاڑ شہر سے تقریباً اڑھائی میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جنوبی جانب جبال گیر نامی دو پہاڑ ہیں اور قبا اور عوالی نامی دو بستیاں ہیں حرۃ الواقم اور حرۃ الوبرہ کے درمیان شمال میں لیکن ذرا علیحدہ جبل سلع ہے یہی وہ جگہ ہے یہاں چار ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ خندق کھودی تھی۔ اور مدینہ منورہ پر حملہ آور کفار کا راستہ بند کر دیا تھا۔ یہ واقعہ غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کہلاتا ہے یہ خندق حرۃ الواق سے حرۃ الوبرہ تک ہلالی شکل میں کھو دی گئی تھی اور جبل سلع کے پیچھے سے گزری تھی۔ مسلمانوں کا لشکر جبل سلع کے دامن میں مقیم ہوا تھا۔ شہر کے تقریباً وسط میں قدرے مستطیل شکل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر شکوہ مسجد ہے اس مسجد کے مشرقی پہلو اور جنوبی سرے پر روضہ اطہر ہے جس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما ہیں اور آپ کے دو معزز رفیق ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی یہیں مدفون ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں