مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ افعال حج کا بیان ۔ حدیث 1077

حج کر کے واپس آنے والے سے سلام ومصافحہ کرو

راوی:

وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا لقيت الحاج فسلم عليه وصافحه ومره أن يستغفر لك قبل أن يدخل بيته فإنه مغفور له " . رواه أحمد

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ جب تم حاجی سے ملاقات کرو تو اس کو سلام کرو اس سے مصافحہ کرو اور اس سے اپنے لئے بخشش کی دعا کرنے کو کہو اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اور یہ اس لئے کہ اس کی بخشش کی جا چکی ہے۔ (احمد)

تشریح
جیسا کہ ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے حاجی مستجاب الدعوات ہو جاتے ہیں جس وقت کہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہیں اور گھر واپس آنے کے چالیس روز بعد تک ایسے ہی رہتے ہیں ۔ چنانچہ گزشتہ زمانہ میں دستور تھا اور اب بھی ہے کہ جب حجاج اپنے گھر واپس آتے تھے تو لوگ ان کے استقبال کے واسطے جایا کرتے تھے اور ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اس شخص کی مغفرت ہو چکی ہے اور یہ گناہوں سے پاک ہو کر آیا ہے اس سے مل کر مصافحہ کریں پیشتر اس کے کہ وہ دنیا میں ملوث ہو جائے تاکہ ہم کو بھی ان سے کچھ فیض پہنچے ۔ اگرچہ آج کل یہ غرض کم اور نام و نمود کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔
چنانچہ اس حدیث میں بھی حاجی سے سلام و مصافحہ کرنے کے لئے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اس وقت تک دنیا میں ملوث اور اپنے اہل و عیال میں مشغول نہیں ہوتا بلکہ اس وقت تک وہ اللہ کے راستہ ہی میں ہوتا ہے اور گناہوں سے پاک و صاف ہوتا ہے اور اس صورت میں حاجی چونکہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ اس سے اپنے لئے مغفرت و بخشش کی دعا کراؤ تاکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اور تمہیں مغفرت و بخشش سے نوازے۔
علماء لکھتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا، جہاد کرنے والا اور دینی طالب علم بھی حاجی کے حکم میں یعنی جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے گھر آئیں تو ان سے بھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام و مصافحہ کیا جائے اور دعاء بخشش و مغفرت کی درخواست کی جائے کیونکہ یہ لوگ بھی مغفور ہوتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں