مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ افعال حج کا بیان ۔ حدیث 1063

حج علی الفور واجب ہے یا علی التراخی

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من أراد الحج فليعجل " . رواه أبو داود والدارمي

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ جلدی کرے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص حج کرنے پر قادر ہو اور حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لئے ملے ہوئے موقع کو غنیمت جانے کیونکہ تاخیر کرنے کی صورت میں نہ معلوم کتنی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں اور مآل کار اس نعمت عظمی سے محرومی رہے۔
اس بارے میں کہ حج علی الفور واجب ہے یا علی التراخی؟ حنفیہ کے ہاں سب سے صحیح قول یہ ہے کہ جب حج واجب ہو یعنی شرائط حج پائے جائیں اور حج کا وقت آ جائے نیز قافلہ مل جائے (بشرطیکہ قافلے کی ضرورت ہو جیسا کہ پہلے زمانے میں بغیر قافلہ کے سفر کرنا تقریبا ناممکن ہوتا تھا ) تو اسی سال حج کرے دوسرے سال تک تاخیر نہ کرے، اگر کوئی شخص بلا عذر کئی سال تاخیر کرتا رہے گا تو وہ فاسق کہلائے گا اور شرعی نقطہ نظر سے اس کی گواہی قبول نہ ہو گی۔ یعنی وہ شریعت کی نظر میں ناقابل اعتبار قرار پائے گا یہاں تک کہ اس عرصے میں اگر اسباب حج (کہ جن کی وجہ سے اس پر حج واجب ہوا تھا) جاتا رہے گا تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط نہیں ہو گا بلکہ باقی رہے گا (جس کی وجہ سے حج نہ کر سکنے کی صورت میں گنہگار ہو گا) حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں واجب علی التراخی ہے یعنی آخر عمر تک حج میں تاخیر جائز ہے جیسا کہ نماز میں آخر وقت تک تاخیر جائز ہے ، حضرت امام محمد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے لیکن اس سلسلے میں دونوں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تاخیر اسی وقت جائز ہو گی جب کہ حج کے فوت ہو جانے کا گمان نہ ہو، اگر یہ گمان ہو کہ تاخیر کرنے میں حج فوت ہو جائے گا (یعنی کبھی حج نہیں کر سکے گا) تو پھر تاخیر نہ کرے، اس صورت میں اگر کوئی شخص حج فرض ہونے کے باوجود بغیر حج کے مرے گا تو تمام ہی علماء کے نزدیک گنہگار مرے گا چنانچہ حج نہ کرنے کا اس سے مواخذہ ہو گا۔
حنفی علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے شرائط حج پائے جانے کے بعد حج میں تاخیر کی اور اس عرصے میں اس کا مال و زر تلف ہو گیا تو وہ قرض لے کر حج کرے اگرچہ اس قرض کی ادائیگی پر وہ قادر نہ ہو اور اس بات کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرض کی عدم ادائیگی پر مواخذہ نہیں کرے گا بشرطیکہ اس کی نیت یہ ہو کہ میرے پاس جب بھی مال آ جائے گا میں یہ قرض ضرور ادا کروں گا۔

یہ حدیث شیئر کریں