دوسرے کی طرف سے حج کرنے کا مسئلہ
راوی:
وعنه قال : إن امرأة من خثعم قالت : يا رسول الله إن فريضة الله عبادة في الحج أدركت أبي شيخا كبيرا لا يثبت على الراحلة أفأحج عنه ؟ قال : " نعم " ذلك حجة الوداع
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کے ایک فریضہ نے جو اس کے بندوں پر ہے میرے باپ کو بڑا بوڑھا پایا ہے یا جو سواری پر جم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں ! اس کی طرف سے حج کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس عورت کے درمیان یہ سوال جواب حجۃ الوداع میں ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس عورت کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میرے باپ پر بڑھاپے میں حج فرض ہوا ہے ۔ بایں سبب کہ وہ بڑھاپے میں اس کو اتنا مال مل گیا ہے اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ جس کی وجہ سے اس پر حج فرض ہو جاتا ہے یا یہ کہ اب بڑھاپے میں اس کو اتنا مال مل گیا ہے کہ اس پر حج فرض ہو گیا ہے مگر وہ اتنا ضعیف اور کمزور ہے کہ ارکان و افعال حج کی ادائیگی تو الگ ہے وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو کیا میں اس کی طرف سے نیابتہ حج کر لوں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاں! اس کی طرف سے تم حج کر لو۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص پر اگر حج فرض ہو اور وہ بذات خود حج کرنے سے معذور ہو نیز یہ کہ اس کی وہ معذوری ایسی ہو جو موت تک زائل نہ ہونے والی ہو۔ جیسے بڑھاپے کا ضعف، نابینا ہونا، یا پیروں کا کٹا ہونا وغیرہ تو اس کی طرف سے کسی دوسرے شخص کا حج کر لینا جائز ہے ۔ بشرطیکہ وہ معذور اپنی طرف سے حج کرنے والے کو حج کے اخراجات بھی دے اور اسے اپنی طرف سے حج کرنے کا حکم بھی دے۔ نیز اس کی موت کے بعد بھی اس کی طرف سے کسی دوسرے شخص کا حج کرنا جائز ہے جب کہ وہ اس کی وصیت کر کے مرا ہو۔ لیکن بعض علماء کہتنے ہیں کہ اولاد اگر اپنے والدین کی طرف سے فرض حج کرے تو اس صورت میں حکم اور وصیت شرط نہیں ہے یعنی والدین کی طرف سے حج کرنا۔ بغیر حکم اور بغیر وصیت کے بھی جائز ہے، یہ تو فرض حج کی بات تھی نفل حج کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے کسی دوسرے سے نفل حج کرائے ۔ تو معذوری شرط نہیں ہے۔ یعنی اگر بذات خود اسے حج کرنے کی قدرت و طاقت حاصل ہے تو اس کے باوجود وہ کسی دوسرے سے اپنا نفل حج کرا سکتا ہے۔
مذکورہ بالا مسئلہ کو ذہن میں رکھ کر حدیث کی طرف آئیے ۔ عورت اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ رہی ہے۔ لیکن وہ چونکہ وضاحت نہیں کر رہی ہے اس لئے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باپ نے نہ تو اس کو اپنی طرف سے حج کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ اسے اخراجات دئیے ہیں۔ گویا اس طرح حدیث کے ظاہری مفہوم اور مذکورہ بالا اس فقہی روایت میں کہ جس کی طرف سے حج کیا جائے اس کا حکم اور اس کی طرف سے اخراجات کی ادائیگی حج کے صحیح ہونے کی شرط ہے، تضاد نظر آتا ہے، لہٰذا اس تضاد کو اس تاویل کے ذریعے ختم کیا جائے گا کہ اس عورت کے باپ نے اس کو اپنی طرف سے حج کرنے کی اجازت بھی دی ہو گی اور اسے اخراجات بھی دئیے ہوں گے مگر اس نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
اس تاویل کی بنیاد حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی وہ تقریر ہے کہ انہوں نے حضرت ابورزین کی روایت کی وضاحت کے ضمن میں بیان کی ہے یہ روایت اسی باب کی دوسری فصل میں آئے گی۔ بعض علماء کے قول کہ والدین کی طرف سے حج کرنا بغیر حکم و وصیت کے بھی جائز ہے۔ کے پیش منظر اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس صورت میں تو یہ حدیث اس فقہی روایت کی دلیل بن جائے گی۔