ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی دولت نہیں
راوی:
وعن أبي بكر قال : قام رسول الله صلى الله عليه و سلم على المنبر ثم بكى فقال : " سلوا الله العفو والعافية فإن أحدا لم يعط بعد اليقين خيرا من العافية " . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث حسن غريب إسنادا
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے رونے لگے اور پھر فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش و عافیت مانگو کیونکہ کسی کو ایقان (ایمان) کے بعد عافیت سے بہتر کوئی عمل نہیں اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے، نیز امام ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث باعتبار سند کے حسن غریب ہے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ میری امت کے افراد خواہشات نفس، ہوس و حرص اور غلبہ شہوت کے فتنوں میں مبتلا ہوں گے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے تصور سے بھی رونے لگے کہ جس امت کے لوگوں کو ایمان و ایقان کی دولت اسلام کی ہدایت اور میری تربیت نے ضبط نفس ایثار و استغناء، دیانت و امانت، عزت و خدداری ، پاک دامنی و پرہیزگاری کے معیار پر نہ صرف پورا اتارا بلکہ انہیں ان اخلاق حمیدہ اور خصائل شریفہ کا بذات خود معیار بنا دیا ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب اسی امت کے لوگ شیطان کے مکر و فریب میں پھنس کر اور اپنے نفس کے تابع ہو کر حرص و ہوس کے مجسمے، بد دیانتی و بد کرداری کے پیکر اور خواہشات نفسانیہ کے غلام بن جائیں گے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر رشد و ہدایت سے یہ حکم فرمایا کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت و بخشش کی طلب کریں اور عافیت مانگیں تاکہ پروردگار انہیں ان آفات و بلاء سے محفوظ و مامون رکھے۔
عافیت کے معنی ہیں سلامتی حاصل ہونا دین میں فتنہ سے اور جسم و بدن کو بری بیماریوں، شدید مصائب اور سخت رنج و تکلیف سے۔