مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ پناہ مانگنے کا بیان ۔ حدیث 1005

طمع سے پناہ مانگنے کا حکم

راوی:

وعن معاذ عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " أستعيذ بالله من طمع يهدي إلى طبع )
رواه أحمد والبيهقي في الدعوات الكبير

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کی پناہ مانگو طمع سے جو طبع تک پہنچا دے۔ (احمد، بیہقی)

تشریح
" طمع" کے معنی ہیں مخلوق اللہ سے مال و زر کی امید رکھنا! اور طمع کے اصل معنی تو ہیں تلوار کو زنگ لگنا۔ لیکن یہاں اس لفظ سے مراد " عیب" ہے لہٰذا حدیث بالا کے مطابق " طمع" سے پناہ مانگنے کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں طمع سے جو مجھے اس مقام پر پہنچا دے جہاں میری زندگی عیب دار ہو جائے اور وہ عیب ہے، اہل دنیا کے سامنے تواضع و انکساری ختیار کرنا، کم ظرف، پست خیال اور بد کردار دنیاداروں کے آگے اپنے آپ کو ذلیل کرنا، سمعہ وریا (کسی بھی کام کے وقت دکھانے سنانے کے جذبہ ) کو ظاہر کرنا، سرمایہ داروں کی بے جا تعریف و مدح اور ان کی چاپلوسی میں مبتلا ہونا اور اسی قسم کی وہ ذلیل حرکتیں جو طمع کی حالت میں صادر ہوتی ہیں۔
حاصل یہ کہ طمع سے اجتناب ضروری ہے کیونکہ یہی وہ حقیر جذبہ ہے جو انسان کی عزت نفس، خود داری اور ضمیر کے شرف و وقار کے لئے بہت بڑا عیب ہے جس کی وجہ سے انسان نہ صرف دنیاوی طور پر ذلیل و حقیر اور بے وقعت ہو جاتا ہے بلکہ دینی طور پر بھی اس کی روح کی بالیدگی اور پاکیزگی کے لئے ایک ناسور سے کم نہیں ہے جو آہستہ آہستہ دین کے تمام گوشوں میں مختلف طریقوں سے زہر کی آمیزش کرتا رہتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ طمع دین کے فساد کی جڑ ہے اور ورع (پرہیز گاری) دین کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔
حضرت شیخ علی متقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " طمع" اسے کہتے ہیں کہ اس مال کی امید رکھی جائے جس کے حاصل ہونے میں شک ہو اگر اس کے حصول کا یقین ہو جیسے کسی پر کوئی حق ہو یا کسی کا وعدہ صادق ہو اور یا کسی سے اتنی راسخ محبت ہو کہ وہ اس کی ہر خواہش کی تکمیل ضرور کرتا ہو تو اسی صورت میں اس سے توقع رکھنے کو طمع نہیں کہتے۔

یہ حدیث شیئر کریں