مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 984

درود و دعا سجدہ سہو سے پہلے پڑھنی چاہیے یا بعد میں

راوی:

وَعَنِ الْمُغِیْرَۃِ ابْنِ شُعْبَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا اَقَامَ الْاِمَامُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ فَاِنْ ذَکَرَ قَبْلَ اَنْ یَسْتَوِی قَائِمًا فَلْیَجْلِسْ وَاِنْ اسْتَویٰ قَائِمًا فَلَا یَجْلِسْ وَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَی السَّھْوِ۔ (رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ)

" اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب امام دو رکعت پڑھ کر (پہلے قعدہ میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لئے ) کھڑا ہو جائے تو اگر سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے اسے یاد آجائے تو اسے چاہیے کہ وہ (قعدہ کے لئے) بیٹھ جائے اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو چکا ہو (اس کے بعد اسے یاد آئے) تو وہ (اب ) نہ بیٹھے اور (آخری قعدہ میں) سہو کے دو سجدے کر لے۔" (سنن ابوداؤد، و سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صورت مذکورہ میں معتبر پوری طرح کھڑا ہونا یا پوری طرح کھڑا نہ ہونا ہے ۔ اس سلسلہ میں حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ایسا آدمی اگر بیٹھنے کے قریب تر ہو جائے تو التحیات پڑھے اور اگر کھڑے ہونے کے قریب تر ہو تو نہ بیٹھے بلکہ اپنی بقیہ دونوں رکعتیں پوری کر لے۔
" قریب تر بیٹھنے" مطلب یہ ہے کہ اٹھتے وقت اس کے نیچے کا بدن (مثلاً ٹانگیں وغیرہ) سیدھا نہ ہو جائے اور اگر نیچے کا بدن سیدھا ہو جائے تو کھڑے ہونے کے قریب تر ہو گا۔
شیخ ابن الہمام نے کہا ہے کہ اقربیت کے سلسلہ میں امام ابویوسف کی بھی ایک روایت ہے جس کو صحیح البخاری کے مشائخ نے اختیار کیا ہے مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا صحیح مسلک یہی ہے کہ جب تک پورا کھڑا نہ ہو جائے بیٹھا جا سکتا ہے پورا کھڑا ہو جانے کی صورت میں بیٹھنا نہیں چاہیے، یہی قول صحیح ہے اور اس کی تائید یہ حدیث بھی کرتی ہے۔
اگر کوئی آدمی کھڑا ہونے سے پہلے قعدے کے لئے بیٹھ جائے تو اس کے لئے سجدہ سہو کی ضرورت نہ ہوگی۔ ہاں جو آدمی پورا کھڑا ہو جائے اور اس سے پہلا قعدہ چھوٹ جائے تو اس کو سجدہ سہو کرنا ہو گا۔
اس سلسلے میں اتنی بات اور جان لیجئے جب کوئی آدمی پہلے قعدے میں بیٹھے بغیر تیسری رکعت کے لئے پوری طرح کھڑا ہو جائے تو اس کو بیٹھنا نہیں چاہیے کیونکہ اگر وہ بیٹھ جائے گا تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔

یہ حدیث شیئر کریں