مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 977

سجدہ سہو کا بیان

راوی:

نماز کے سنن و مستحبات اگر ترک ہو جائیں تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی یعنی نماز صحیح ہو جاتی ہے اور نماز کے فرائض میں سے کوئی چیز اگر سہواً یا عمدا چھوٹ جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے جس کا کوئی تدارک نہیں جس کی وجہ سے نماز کا اعادہ ضروری ہوتا ہے ۔ نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی چیز عمدا چھوڑی جائے تو اس کا بھی تدراک نہیں ہو سکتا اور نماز فاسد ہو جاتی ہے اور اگر نماز کے واجبات میں سے کوئی چیز عمدا نہیں بلکہ سہوا چھوڑ دی جائے تو اس کا تدارک ہو سکتا ہے اور وہ تدارک یہ ہے کہ قعدہ اخیر میں التحیات دورد شریف اور دعا حسب معمول پڑھ کر سلام پھیرا جائے انہیں سجدوں کو سجدہ سہو کیا جاتا ہے۔
اتنی بات سمجھ لیجئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اقوال میں جو شرعی چیزوں کی خبر دینے اور دینی احکام کے بیان سے متعلق ہیں نہ تو کبھی سہو ہوا ہے اور نہ یہ ممکن ہے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال میں سہو ہوتا تھا وہ بھی اس حکمت و مصلحت کے پیش نظر ۔ تاکہ امت کے لوگ اس طرح سہو کے مسائل سیکھ لیں۔

یہ حدیث شیئر کریں