مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 975

نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شیطان کا ایک عجیب معاملہ

راوی:

وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَآءِ رضی اللہ عنہ قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّیْ فَسَمِعْنَاہُ ےَقُوْلُ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ ثُمَّ قَالَ اَلْعَنُکَ بِلَعْنَۃِ اللّٰہِ ثَلٰثًا وَبَسَطَ ےَدَہُ کَاَنَّہُ ےَتَنَاوَلُ شَےْئًا فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلٰوۃِ قُلْنَا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَدْ سَمِعْنَاکَ تَقُوْلُ فیِ الصَّلٰوۃِ شَےْئًا لَمْ نَسْمَعْکَ تَقُوْلُہُ قَبْلَ ذٰلِکَ وَرَأَےْنَاکَ بَسَطْتَّ ےَدَکَ قَالَ اِنَّ عَدُوَّاللّٰہِ اِبْلِےْسَ جَآءَ بِشِھَابٍ مِّنْ نَّارٍ لِّےَجْعَلُہُ فِی وَجْھِیْ فَقُلْتُ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قُلْتُ اَلْعَنُکَ بِلَعْنَۃِ اللّٰہِ التَّآمَّۃِ فَلَمْ ےَسْتَاخِرْ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ اَرَدْتُّ اَنْ اٰخُذَہُ وَاللّٰہِ لَوْ لَا دَعْوَۃُ اَخِےْنَا سُلَےْمَانَ لَاَصْبَحَ مُوْثَقًا ےَّلْعَبُ بِہٖ وِلْدَانُ اَھْلِ الْمَدِےْنَۃِ۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے (نماز کے درمیان) میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں " میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ " میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں، اللہ کی لعنت " اور (یہ فرماتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک اس طرح پھیلائے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو پکڑ رہے ہوں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ہم نے کہا کہ " رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! ہم نے آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں ایسی بات کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے نہیں سنا اور آج ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ پھیلاتے ہوئے بھی دیکھا ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس ملعون آگ کا شعلہ لے کر آیا تھا تاکہ اسے میرے منہ میں ڈالے چنانچہ میں تین مرتبہ یہ کہا کہ " میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں " پھر میں نے کہا کہ " میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں اللہ کی پوری لعنت، وہ نہیں ہٹا تو میں نے (یہ الفاظ) تین مرتبہ کہے، جب وہ پھر بھی نہ ہٹا تو میں نے (اپنے ہاتھ پھیلا کر) اسے پکڑانا چاہا لیکن اللہ کی قسم ! اگر ہمارے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو وہ (مسجد کے ستون) سے صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
اسی باب کی حدیث نمبر ٩ کے ضمن میں اس کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے تابع ہونے اور ان پر تصرف کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی اور جنات ان کے فرمانبردار ہوئے چنانچہ یہ سوچ کر کہ اس معاملے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی امتیازی حیثیت پر اثر پڑے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنا تابع کرنا نہیں چاہا اس حدیث سے یہ بات پوری قوت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ ابلیس یقینا جنات کی قوم سے ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں