مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 968

نماز میں سانپ و بچھو مارنے کا مسئلہ

راوی:

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُقْتُلُوالْاَسْوَدَیْنِ فِی الصَّلٰوۃِ الْحَیَّۃَ وَالْعَقْرَبَ۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤد، والترمذی و النسائی معناہ ۔)

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ نماز میں دو کالوں یعنی سانپ اور بچھو کو مار ڈالو۔ احمد ، ترمذی اور نسائی بالمعنیٰ )

تشریح
ابن ملک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے سانپ یا بچھو سامنے آجائے تو ان کو ایک چوٹ یا دو چوٹ کے ساتھ مارنا چاہیے اس سے زیادہ چوٹ نہ مارنی چاہیے کیونکہ یہ عمل کثیر ہو جائے گا جس سے نماز فاسد ہو جائے گی۔ شرح منیہ میں بعض مشائخ کا قول مذکور ہے کہ یہ (یعنی نماز میں سانپ بچھو مارنے کا حکم) اس صورت میں ہے جب کہ نمازی کو بہت زیادہ یعنی تین قدم پے در پے چلنا نہ پڑے اور نہ زیادہ مشغولیت ہو یعنی تین چوٹ پے در پے مارنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اگر کوئی نمازی سانپ یا بچھو مارنے کی غرض سے پے در پے تین قدم چلے گا یا پے در پے چوٹیں مارے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی ۔ کیونکہ اتنا زیادہ چلنا یا اتنی مقدار مشغولیت اختیار کرنا عمل کثیر ہے۔ سرخسی نے اسے مبسوط میں ذکر کیا ہے اور پھر کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اس سلسلے میں یہ فرق نہ کیا جائے کہ تین قدم چلنے سے یا تین چوٹیں مارنے سے نماز فاسد ہو جائے گی کیونکہ جس طرح حدیث پیش آجانے (یعنی وضو ٹوٹ جانے کی شکل میں زیادہ چلنے کی سہولت دی گئی ہے اسی طرح اس مسئلے میں بھی سہولت دی گئی ہے۔ لیکن تحقیقی طور پر صحیح بات یہی ہے کہ تین قدم چلنے یا تین چوٹ مارنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
البتہ اتنی سہولت ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ سانپ یا بچھو نماز میں سامنے آجائے اور اس کا مارنا ضروری ہو تو ایسی صورت میں ان کو مارنے کے لئے نماز توڑ دینا مباح ہے جیسا کہ کسی مظلوم کی فریاد رسی یا کسی کو ڈوبنے اور ہلاکت سے بچانے کی خاطر نماز توڑ دینا مباح ہے یعنی اگر کسی کے چھت سے گر جانے یا آگ میں جل جانے یا کنویں وغیرہ میں ڈوب جانے کا قوی خطرہ ہو اور قریب ہی ایک آدمی نماز میں ہو تو اس نمازی کو چاہئے کہ نماز کو توڑ دے اور انہیں بچانے کی کوشش کرے یا اسی طرح کسی نمازی کو حالت نماز میں اپنی یا غیر کی کسی چیز کے ضائع ہو جانے کا خوف ہو اور اس کی قیمت ایک درہم تک ہو تو اسے اس چیز کو بچانے کے لئے نماز توڑ دینا جائز ہے۔
اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف کالے سانپ ہی کو مارا جا سکتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ حدیث میں کالے سانپ کی تخصیص محض تغلیبا کی گئی ہے چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ ہر قسم کے سانپوں کو مارنا جائز ہے کالے سانپوں ہی کی تخصیص نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں