تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِ وَقَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِیْ یَدَ ْیِہ کِتَابَانِ فَقَالَ اَتَدْرُوْنَ مَا ھٰذَانِ الْکِتَابَانِ قُلْنَا لَا یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلَّا اَنْ تُخْبِرَ نَا فَقَالَ لِلَّذِیْ فِیْ یَدِہِ الْیُمْنٰی ھٰذَا کِتَابٌ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ فِیْھَا اَسْمَآ ءُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ اَسْمَآءَ اٰبَآئِھِمْ وَ قَبَآئِلِھِمْ ثُمَّ اُجْمِلَ عَلٰۤی اٰخِرِھِمْ فَلَا یُزَادُفِیْھِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْھُمْ اَبَدًا ثُمَّ قَالَ لِلَّذِیْ فِیْ شِمَالِہٖ ھٰذَا کِتَابٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ فِیْہِ اَسْمَآءُ اَھْلِ النَّارِ وَ اَسْمَآءُ اٰبَآئِھِمْ وَ قَبَائِلِھْمْ ثُمَّ اُجْمِلَ عَلٰۤی اٰخِرِھِمْ فَلَا یُزَادُ فِیْھِمْ وَلَا یُنْقَصُ مِنْھُمْ اَبَدًافَقَالَ اَصْحَابُہ، فَفِیْمَ الْعَمَلُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنْ کَانَ اَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ فَقَالَ سَدِّدُوْاوَقَارِبُوْا فَاِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّۃِ یُخْتَمُ لَ،ہ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَاِنْ عَمِلَ اَیَّ عَمَلِ وَاِنَّ صَاحِبَ النَّارِ یُخْتَمُ لَہ، بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِوَاِنْ عَمَلِ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیْہِ فَنَبَذَ ھُمَا ثُمَّ قَالَ فَرَغَ رَبُّکُمْ مِنَ الْعِبَادِ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ۔ (رواہ الجامع ترمذی)
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں اور (صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے) فرمایا جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا معلوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بتا دیجئے (یہ کتابیں کیا ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کے بارہ میں فرمایا جو داہنے ہاتھ میں تھی کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے جس میں اہل جنت ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہوئے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کر دی گئی ہے لہٰذا اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی ، اس کے بعد بائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک ایسی کتاب ہے جس پر اہل دوزخ ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کر دی گئی ہے۔ لہٰذا اب نہ تو اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ زیادتی۔ یہ (سن کر) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگرچہ یہ چیز پہلے سے ہی طے ہو چکی ہے (کہ جنت و دوزخ کا مدار نوشتہ تقدیر پر ہے تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (دین و شریعت کے مطابق اپنے اعمال کو) اچھی طرح مضبوط کرو اور (حق تعالیٰ کا ) تقرب حاصل کرو۔ اس لئے کہ جنتی کا خاتمہ اہل جنت کے اعمال پر ہوتا ہے خواہ (زندگی میں) اس نے کیسے ہی (نیک یا بد) عمل کئے ہوں اور دوزخمی کا خاتمہ اہل دوزخ کے عمل پر ہوتا ہے خواہ اس کے اعمال جیسے بندوں کے بارے میں یہ پہلے سے طے کر چکا ہے کہ ایک جماعت جنتی ہے اور ایک جماعت دوزخی ہے۔" (جامع ترمذی)
تشریح
کتابوں کو پیچھے ڈال دینا اہانت کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ بارگاہ الوہیت سے اس معاملہ میں کہ دوزخی و جنتی کون کون لوگ ہیں ازل ہی میں حکم ہو چکا ہے اور جو نوشتہ تقدیر بن چکا ہے۔
ظاہری طور پر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں واقعی کتابیں تھیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دکھلا بھی دیا تھا۔ لیکن ان کے اندر جو مضمون لکھے ہوتے تھے وہ نہیں دکھلائے تھے، لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حقیقت میں کتابیں نہیں تھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال کے طور پر اس انداز سے فرمایا تاکہ یہ مسئلہ صحابہ کے ذہن نشین ہو جائے۔