مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 88

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہ عَنْہ قَالَ قَامَ فِےْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ لَا ےَنَامُ وَلَا ےَنْبَغِیْ لَہُ اَنْ ےَّنَامَ ےَخْفِضُ الْقِسْطَ وَےَرْفَعُہُ ےُرْفَعُ اِلَےْہِ عَمَلُ اللَّےْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّھَارِ وَعَمَلُ النَّھَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّےْلِ حِجَابُہُ النُّوْرُ لَوْ کَشَفَہُ لَاَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْہِہٖ مَا انْتَھٰی اِلَےْہِ بَصَرُہُ مِنْ خَلْقِہٖ۔(صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور پانچ باتیں ارشاد فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے ، اور سونا اس کی شان کے مناسب نہیں ہے۔ وہ ترازو کو بلند و پست کرتا ہے، دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل اور رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جاتے ہیں اور اس کا حجاب نور ہے جسے اگر وہ اٹھا دے تو اس کی ذات پاک کا نور مخلوقات کی تاحد نگاہ تمام چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
ترازو کو بلند و پست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر رزق کی وسعت کرتا ہے اور اسے مال و زر کی فراوانی سے نوازتا ہے اور کس پر اسباب معیشت اور رزق کے دروازے تنگ کر کے اسے محتاجی و تنگدستی میں مبتلا کر دیتا ہے، اسی طرح کسی بندہ کو وہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیکوکاری کی بدولت عزت و عظمت اور شرف و فضیلت سے نوازتا ہے اور کسی گناہ گار بندہ کو اس کی سرکشی و نافرمانی اور بدکاری کی بنا پر اسے ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور اسے تباہی و بربادی کے غار میں ڈال دیتا ہے۔
ایسے ہی " دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جانے" کا مطلب یہ ہے کہ بندہ سے جو کوئی عمل سرزد ہوتا ہے وہ فوراً بلا تاخیر بارگاہ الوہیت تک پہنچ جاتا ہے یعنی ابھی سورج بھی نہیں نکلتا اور کوئی عمل صادر ہونے بھی نہیں پاتا کہ رات کے عمل جو بندہ سے سرزد ہوئے ہیں اوپر پہنچ چکے ہوتے ہیں ، اسی طرح رات شروع بھی نہیں ہوتی کہ دن کے عمل وہاں پہنچ جاتے ہیں، اب جو نیک عمل اور اچھا ہوتا ہے اسے قبولیت کے شرف سے نواز کر اس پر جزاء و انعام کا پروانہ صادر کر دیا جاتا ہے اور اس پر عذاب و سزا کا حکم دے دیا جاتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں