مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 85

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ رَجُلٌ شَآبٌّ وَّاَنَا اَخَافُ عَلٰی نَفْسِیْ الْعَنَتَ وَلَا اَجِدُ مَا اَتَزَوَّجُ بِہِ النِّسَآءَ کَاَنَّہُ ےَسْتَاْذِنُہُ فِی الْاِخْتِصَآءِ قَالَ فَسَکَتَ عَنِّیْ ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَسَکَتَ عَنِّیْ ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَسَکَتَ عَنِّیْ ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَا اَبَا ھُرَےْرَۃَ جُفَّ الْقَلَمُ بِمَا اَنْتَ لَاقٍ فَاخْتَصِ عَلٰی ذَالِکَ اَوْذَرْ۔(صحیح البخاری)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، " یا رسول اللہ میں ایک جوان مرد ہوں اور میں اپنے نفس سے ڈرتا ہوں کہ بدکاری کی طرف مائل نہ ہو جائے اور میرے اندر اتنی استطاعت نہیں ہے کہ کسی عورت سے شادی کر لوں" گویا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اندر سے قوت مردمی ختم کر دینے کی اجازت مانگتے تھے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا: میں نے دوبارہ یہی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے، میں نے پھر عرض کیا اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں فرمایا میں نے پھر اسی طرح عرض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ! جو کچھ ہونا ہے (اسے تمہارے مقدر میں لکھ کر) قلم خشک ہو چکا ہے لہٰذا تمہیں اختیار ہے کہ قوت مردمی ختم کرو یا نہ کرو۔" (صحیح البخاری )

تشریح
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تمہارے مقدر میں جو کچھ ہونا لکھا ہے وہ پورا ہوگا، اگر خدانخواستہ کسی بدکاری میں مبتلا ہونا تمہارے لئے نوشتہ تقدیر بن چکا ہے تو یہ قبیح فعل تم سے ضرور ہوگا، اور اگر قضا و قدر نے تمہاری پاکدامنی اور معصیت سے حفاظت لی ہے تو چاہے تم اپنی قوت مردمی ختم کر کے نامرد بن جاؤ، یا اس فعل سے باز رہو، تمہارا نفس تمہیں نہیں بہکا سکتا اور تم پاک دامن رہو گے اسی طرف جف القلم کہہ کر اشارہ فرمایا گیا۔
اس حدیث میں اصل میں اس طرف تنبیہ اور تہدید مقصود ہے کہ اسباب و تدبیر کو تقدیر کے مقابلہ پر لانا اور نوشتہ تقدیر سے لاپرواہ ہو کر اس سے بھاگنا جائز نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں