تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا وَقَدْ کُتِبَ مَقْعَدُہ، مِنَ النَّارِ وَمَقْعَدُہ، مِنَ الْجَنَّۃِ قَالُوْا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نَتَوَکَّلُ عَلٰی کِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ قَالَ اعْمَلُوْا فَکُلُّ مُّےَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ اَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ السَّعَادَۃِ فَسَےُےَسَّرُ لِعَمَلِ السَّعَادَۃِ وَاَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الشِّقَاوَۃِ فَسَےُےَسَّرُ لِعَمَلِ الشَّقَاوَۃِ ثُمَّ قَرَأَ'' فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی الاےۃ''(پ٣٠۔رکوع ١٧) (صحیح البخاری و صحیح مسلم )7-58
" اور حضرت علی کرم وجہہ ( امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی، آپ کی سب سے لاڈلی صاحب زادی حضرت فاطمہ کے شوہر اور چوتھے خلیفہ راشد ہیں ان کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے آخر عشرہ رمضان ٣٠ھ میں آپ نے انتقال فرمایا اور شہادت کا درجہ پایا۔ اس وقت آپ کی عمر واقدی کی تحقیق کے مطابق ٦٣ برس کی تھی تین دن کم پانچ سال تک آپ خلیفہ رہے ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم میں سے ہر آدمی کی جگہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ میں لکھ دی ہے۔ (یعنی یہ معین ہو گیا کہ کون لوگ جنتی ہیں اور کون لوگ دوزخی ہیں) صحابہ نے عرض کیا " یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنے نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کر بیٹھیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم عمل کرو اس لئے کہ جو آدمی جس چیز کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس پر اسے آسانی اور توفیق دی جاتی ہے لہٰذا جو آدمی نیک بختی کا اہل ہوتا ہے اللہ اس کو نیک بختی کے اعمال کی توفیق دیتا ہے اور جو آدمی بدبختی کا اہل ہوتا ہے اس کو بدبختی کے اعمال کا موقع دیا جاتا ہے اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ)" جس نے اللہ کر راہ میں دیا، پرہیزگاری کی اور اچھی بات (دین و اسلام) کو سچ مانا، اس کے لئے ہم آسانی کی جگہ (جنت) آسان کر دیں گے لیکن جس نے بخل کیا اور (خواہشات نفسانی و دنیاوی چمک دمک میں پھنس کر) آخرت کی نعمتوں سے بے پروائی کی، نیز عمدہ بات (دین و اسلام) کو جھٹلایا تو اس کے لئے ہم مشکل جگہ (دوزخ کی راہ) آسان کر دیں گے۔" الخ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا منشاء یہ تھا کہ تم لوگ تقدیر پر بھروسہ کر کے عمل چھوڑنے کو جو کہتے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جنت و دوزخ کا پہلے مقدر میں لکھا جانا اور ہر ایک کے بارہ میں معین ہو جانا کہ کون نیک بخت ہے اور کون بد بخت، اعمال کو ترک کرنے کا باعث نہیں ہے اس لئے کہ اللہ نے اپنی ربوبیت و الوہیت کے اظہار کے طور پر جو کچھ احکام دیئے ہیں اور جو فرائض بندوں پر عائد کئے ہیں اس پر عمل کرنا اور احکام کی پیروی کرنا بمقتضائے عبودیت بندوں پر لازم و ضروری ہے کیونکہ عمل ہی کو نیک بختی و بدبختی کا نشان قرار دیا گیا ہے کہ جو کوئی عمل کرے گا اس کو نیک بخت سمجھا جائے اور جو عمل نہیں کرے گا اس کو بدبخت سمجھا جائے گا اور پھر یہ بھی تقدیری معاملہ ہے کہ اللہ نے جس کے مقدر میں نیک بخت ہونا لکھ دیا ہے وہ یقینا اعمال کو پورا کرے گا اور جس کے مقدر میں بد بخت ہونا لکھا گیا ہے وہ اعمال کو چھوڑ کر گمراہی میں جا پڑے گا۔
جہاں تک ثواب و عذاب کا معاملہ ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کی مصلحت پر موقوف ہے وہ جو بھی معاملہ کرے گا اس پر اسے اختیار ہوگا اس میں کسی کے جبر و اکراہ کو دخل نہیں ہوگا۔