تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاقَالَتْ دُعِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلٰی جَنَازَۃِ صَبِیٍّ مِّنَ الْاَنْصَارِ فَقُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ طُوْبٰی لِھَذَا عُصْفُوْرٌ مِّنْ عَصَافِےْرِ الْجَنَّۃِ لَمْ ےَعْمَلِ السُّوْءَ وَلَمْ ےُدْرِکْہُ فَقَالَ اَوْغَےْرُ ذٰلِکَ ےَا عَائِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْ اَصْلَابِ اٰبَائِھِمْ وَخَلَقَ لِلنَّارِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْ اَصْلَابِ اٰبَآئِھِمْ۔(صحیح مسلم)
" اور حضرت عائشہ ( ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت ابوبکر صدیق کی ذی شان صاحبزادی اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چہیتی اور محبوب زوجہ مطہرہ ہیں جن کا لقب صدیقہ ہے۔ آپ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ ٥٧ھ،٥٨ میں آپ کا انتقال ہوا ہے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔) فرماتی ہیں کہ ایک انصاری بچہ کے جنازہ پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا، میں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس بچہ کو خوشخبری ہو، یہ تو جنت کی چڑیوں میں کی ایک چڑیا ہے، جس نے کوئی برا کام نہیں کیا اور نہ برائی کی حد تک پہنچا۔ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " عائشہ ! کیا اس کے سوا کچھ اور ہوگا؟ یعنی اس کے جنتی ہونے کا جزم و یقین نہ کرو کیونکہ اللہ نے جنت کے لئے مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے اور دوزخ کے لئے بھی مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے۔ " (صحیح مسلم)
تشریح
بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونا نیک و بد عمل پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ تقدیری معاملہ ہے اللہ نے ایک جماعت کے لئے ازل ہی سے جنت لکھ دی ہے اس لئے وہ جنت میں جائے گی خواہ وہ نیک اعمال کریں یا نہ کریں، اسی طرح ایک گروہ دوزخ کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو دوزخ میں یقینا جائے گا خواہ اس کے اعمال بد ہوں یا نہ ہوں۔ لہٰذا یہ لڑگا اگر دوزخ کے لئے پیدا کیا گیا تھا تو وہ دوزخ میں یقینا جائے گا اگرچہ اس سے اب تک اعمال بد صادر نہیں ہوئے ہیں۔
لیکن اس کے برخلاف اکثر آیات و احادیث اور علماء کے متفق علیہ اقوال ایسے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسلمان بچہ اگر کمسنی کی حالت میں انتقال کر جائے تو وہ یقینا جنتی ہے بلکہ کفار و مشرکین کے کمسن بچوں کے بارہ میں بھی صحیح یہی مسئلہ ہے کہ وہ بھی جنت میں داخل کئے جائیں گے۔
لہٰذا اب اس حدیث کی توجیح یہی کی جائے گی کہ چونکہ حضرت عائشہ نے اس کے جنتی ہونے پر اس عزم و یقینی کے ساتھ حکم لگایا تھا کہ گویا انہیں غیب کا علم ہے اور اللہ کی مصلحت و مرضی کی راز دان ہیں، اس لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس جزم و یقین پر یہ تنبیہ فرمائی کہ تم اپنے اس وثوق کی بنیاد پر گویا غیب دانی کا اقرار کر رہی ہو، جو کسی بندہ کے لئے مناسب نہیں ہے یا زیادہ صحیح توجیہ اس حدیث کی یہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس وقت تک ہوگا جب تک بچوں کے جنتی ہونے کا حکم وحی کے ذریعہ معلوم نہیں ہوا تھا ( اللہ علم)