جمعہ کے روز نماز فجر کی قراء ت
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ صقَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقْرَأُ فِی الْفَجْرِ ےَوْ مَ الْجُمُعَۃِ بِاَلۤمّ تَنْزِےْلُ فِی الرَّکْعَۃِ الْاُوْلٰی وَفِی الثَّانِےَۃِ ھَلْ اَتٰی عَلیَ الْاِنْسَانِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں الم تنزیل اور دوسری رکعت میں ھل اتی علی الانسان پڑھتے تھے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حضرات شوافع اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمعہ کے روز نماز فجر میں حدیث میں مذکورہ سورتیں ہی پڑھنی چاہئیں مگر حنفیہ چونکہ تعین سورت سے منع کرتے ہیں اس لئے فرماتے ہیں کہ یہ اولیٰ نہیں ہے کہ کسی خاص سورت کو کسی روز خاص نماز کے ساتھ اس طرح متعین کر لیا جائے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری سورت پڑھی ہی نہ جائے۔ ان حضرات کے نزدیک تعین قرأت و سورت کی ممانعت کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر کسی خاص نماز کے ساتھ کسی خاص سورت کو متعین کر دیا جائے گا تو لوگ اسی ایک سورت کو لازم و واجب سمجھ کر پڑھیں گے اور اس کے علاوہ دوسری سورتوں کو پڑھنا مکر وہ سمجھیں گے۔
ہاں اگر کوئی آدمی مثلاً اس حدیث کے مطابق جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں الم تنزیل سورت السجدہ) اور دوسری رکعت میں ھل اتی علی الانسان (سورۃ دہر) حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی برکت حاصل کرنے اور اتباع سنت کے جذبے سے پڑھا کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ ان سورتوں کے علاوہ کبھی کبھی کوئی دوسری سورت بھی پڑھ لیا کرے تاکہ کم علم اور عوام یہ نہ سمجھیں کہ ان سورتوں کے علاوہ کوئی دوسری سورت پڑھنی جائز نہیں ہے۔
اس کے علاوہ حنفیہ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس عمل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوام ثابت نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے لہٰذا کبھی کبھی پڑھنا تو ہر آدمی کے لئے افضل ہے۔
اس موقعہ پر یہ مسئلہ بھی سن لیجئے کہ اگر کوئی آدمی صبح کی نماز میں سورت سجدہ پڑھے تو اسے سجدہ تلاوت بھی کرنا چاہئے اگرچہ شوافع کے کچھ علماء نے بعض ایام میں امام کے لئے اس کو ترک کرنا ہی اولیٰ قرار دیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدہ تلاوت کرنا ہی ثابت ہے۔