مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 796

فقہاء کی جانب سے نمازوں میں تعین قراءت کی دلیل

راوی:

وَعَنْ اُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بِالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت ام فضل بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں سورت والمرسلات عرفا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
یہ احادیث اور وہ حدیث جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورت اعراف، سورت انفال اور سورت دخان پڑھتے تھے یا اسی قسم کی دوسری احادیث سب اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نمازوں میں کسی خاص اور متعین سورت کا پڑھنا ضروری نہیں ہے بلکہ نمازی کی آسانی و سہولت پر موقوف ہے کہ وہ جس نماز میں جو بھی سورت چاہے پڑھ سکتا ہے۔ فقہا جو یہ لکھتے ہیں کہ فجر و ظہر میں طوال مفصل، عصر و عشاء میں او ساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل پڑھنا چاہئے تو ان کے تعین قرأت کی اصلی دلیل یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو اس زمانہ میں کوفہ کے گورنر تھے ایک خط لکھا تھا اس میں یہ مذکورہ تفصیل لکھی تھی اس کے مطابق نمازوں میں قرأت کا اس طرح تعین قرار پایا۔ اس مسئلہ کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں طول و قصر کے سلسلے میں قرأت کا مسئلہ اختلاف احوال و اوقات اور مصلحت جواز کے ساتھ مختلف تھا پھر بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس مکتوب گرامی کی روشنی میں قرأت کا ایک نہج اور اصول مقرر کیا گیا جس کو فقہاء کی اصطلاح میں طوال مفصل (" طوال مفصل" سورت حجرات سے سورت والسماء ذات البروج تک اور " اوساط مفصل" سورت والسماء ذات البروج سے سورت لم یکن (البینۃ) تک اور " قصار مفصل" سورت لم یکن کے بعد سے سورت الناس تک کی سورتوں کو کہا جاتا ہے ١٢۔) اور اوساط مفصل اور قصار مفصل کا نام دیا گیا اور ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوئی دلیل براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے ہاتھ لگی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طریقہ کے مطابق کبھی کبھی قرأت کرتے ہوں جس کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا ہے اور کبھی کبھی اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی معمول رہتا ہو جو ان احادیث میں مذکور ہے ۔ بہر حال ہم تو سمجھتے ہیں کہ فقہاء کے مقرر کردہ اس اصول کے لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول ہی دلیل کے لئے کافی ہے؟

یہ حدیث شیئر کریں