نماز میں قراءت کا طریقہ
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقْرَأُ فِی الظُّھْرِ فِیْ الْاُوْلَےَےْنِ بِاُمِّ الْکِتٰبِ وَسُوْرَتَےْنِ وَ فِیْ الرَّکْعَتَیْنِ الْاُخْرَےَےْنِ بِاُمِّ الْکِتَابِ وَےُسْمِعُنَا الْاٰےَۃَ اَحْےَانًا وَّےُطَوِّلُ فِی الرَّکْعَۃِ الْاُوْلٰی مَا لَا ےُطِےْلُ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِےَۃِ وَھٰکَذَا فِی الْعَصْرِ وَھٰکَذَا فِی الصُّبْحِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوقتا دہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور دو سورتیں (یعنی ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور ایک سورۃ) پڑھتے تھے اور بعد کی دونوں رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں (بھی) آیت سنا دیا کرتے تھے اور دوسری رکعت کی بہ نسبت پہلی رکعت کو زیادہ طویل کرتے تھے اسی طرح عصر اور فجر کی نماز میں بھی کرتے تھے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ظہر کی نماز میں یوں تو قرأت سری (یعنی آہستہ آواز سے) سے ہوتی ہے اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ظہر کی نماز میں کوئی آیت یا سورت بآواز بھی پڑھ دیا کرتے تھے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ جان لیں کہ سورت فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا کوئی آیت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ یا لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں سورت کی قرأت کر رہے ہیں۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ یہاں ظہر کی تخصیص تقیدی ہیں ہے بلکہ اتفاقی ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں ایسا ہی کرتے تھے۔
پہلی رکعت کو طویل کرنے کا مسئلہ :
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی رکعت کو دوسری رکعتوں سے زیادہ طویل کرنا چاہئے چنانچہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہی ہے کہ تمام نمازوں میں پہلی رکعت کو دوسری رکعت کی بہ نسبت زیادہ طویل کرنا چاہئے ۔ حنفیہ میں سے حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی مسلک یہی ہے، ان حضرات نے ظہر، عصر اور صبح کی نمازوں میں پہلی رکعت کو طویل کرنے کے مسئلے کو احادیث سے ثابت کیا ہے اور مغرب و عشاء کو ان تینوں پر قیاس کیا ہے۔ عبدالرزاق نے اس حدیث کے آخر میں معمر سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ " ہمارا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت کو اس لئے طویل کرتے تھے کہ لوگ پہلی رکعت پالیں، امام ابوداؤد اور ابن خزیمہ رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے بھی یہی لکھا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک پہلی رکعت کو طویل کرنا صرف فجر کی نماز کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ وقت نیند و غفلت کا ہوتا ہے ۔ ورنہ تو دونوں رکعتیں چونکہ استحقاق قرأت میں برابر ہیں۔ اس لئے مقدار قرأت میں بھی برابر ہونی چاہئیں چنانچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں تیس آیتوں کی مقدار قرأت کیا کرتے تھے جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے پہلی رکعت کو طویل کرنے کا اثبات ہوتا ہے تو یہ اس بات پر محمول ہے کہ چونکہ پہلی رکعت میں دعا کے استفتاح (یعنی سبحانک اللہم اور اعوذ باللہ و بسم اللہ پڑھی جاتی ہے اس لئے پہلی رکعت طویل معلوم ہوتی تھی نیز یہ کہ طوالت تین آتیوں سے بھی کم کی مقدار میں ہوتی تھی۔
خلاصہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک احب یعنی اچھا ہے۔