تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ اِنَّ خَلْقَ اَحَدِکُمْ ےُجْمَعُ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِےْنَ ےَوْمًا نُّطْفَۃً ثُمَّ ےَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ ےَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ ےَبْعَثُ اللّٰہُ اِلَےْہِ مَلَکًا بِاَرْبَعِ کَلِمَاتٍ فَےَکْتُبُ عَمَلَہُ وَاَجَلَہُ وَ رِزْقَہُ وَشَقِیٌّ اَوْ سَعِےْدٌ ثُمَّ ےُنْفَخُ فِےْہِ الرُّوْحُ فَوَالَّذِیْ لَا اِلٰہَ غَےْرُہُ اِنَّ اَحَدَکُمْ لَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی مَا ےَکُوْنَ بَےْنَہُ وَبَےْنَھَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَےَسْبِقُ عَلَےْہِ الْکِتَابُ فَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ فَےَدْخُلُھَاوَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ حَتّٰی مَا ےَکُوْنَ بَےْنَہُ وَبَےْنَھَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَےَسْبِقُ عَلَےْہِ الْکِتَابُ فَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَےَدْخُلُھَا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ صادق و مصدوق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا۔ تم میں سے ہر آدمی کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ (پہلے) اس کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے، پھر اتنے ہی دنوں یعنی چالیس دن کے بعد وہ جما ہوا خون بنتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے بعد وہ لوتھڑا ہو جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ کو چار باتوں کے لکھنے کے لئے بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتہ اس کے عمل اس کی موت (کا وقت) اس کے رزق (کی مقدار) اور اس کا بدبخت و نیک بخت ہونا اللہ کے حکم سے اس کی تقدیر میں لکھ دیتا ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تم میں سے ایک آدمی جنت والوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا آگے آتا ہے۔ اور وہ دوزخیوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے، اور تم میں ایک آدمی دوزخیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا سامنے آتا ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
ایسا کم ہوتا ہے کہ لوگ بھلائی کے راستہ کو چھوڑ کربرائی کا راستہ اختیار کرتے ہوں لیکن اللہ کی رحمت کاملہ کے صدقے اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو لوگ بد بختی و برائی کے راستہ کو اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھلائی کی طرف آجاتے ہیں اور نیکی کے راستہ کو اختیار کر لیتے ہیں۔
اس حدیث نے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ابدی نجات و عذاب کا دار و مدار خاتمہ پر ہے، اگر کسی کی پوری زندگی گناہ و معصیت یا کفر و شرک میں گزری لیکن اس نے آخر وقت میں صدق دل سے اپنی بداعمالیوں اور گمراہی پر نادم و شرمسار ہو کر نیک بختی و سعادت کے راستہ کو اختیار کر لیا تو وہ نجات پا جائے گا۔
اسی طرح اگر کوئی آدمی تمام عمر نیکی و بھلائی کرتا رہا اور اس کی تمام زندگی اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزری لیکن آخر وقت میں وہ شیطان کی گمراہی یا اپنے نفس کی شرارت سے گمراہ ہو گیا اور اس نے اپنی حیات کے آخری لمحوں کو برائی و بدبختی کی بھینٹ چڑھا دیا تو وہ اپنی زندگی بھر کی نیکیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
لہٰذا اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ بھلائی و بہتری اور اخروی نجات اسی میں ہے کہ بندہ ہمیشہ اطاعت الہٰی اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بجا آوری میں مصروف رہے، اس کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی حدود شریعت سے تجاوز کرنے نہ پائے اور ہر آنے والے لمحہ کو یہ سوچ کر کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری لمحہ ہو نیکی و بھلائی میں صرف کرتا رہے تاکہ خاتمہ بالخیر کی سعادت سے نوازا جائے۔
اس موقع پر اتنی بات اور بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو لوگ قضا و قدر کے مسئلوں کو دیکھ کر یہ نظریہ قائم کر بیٹھے ہیں کہ جب نجات و عذاب، نیک بختی و بدبختی اور جنت و دوزخ کا ملنا تقدیری چیز ہے تو عمل کی کیا ضرورت ہے؟ وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی جو اس مسئلہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ پائے تھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس قسم کی بات کہی تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم عمل کئے جاؤ کیونکہ جس کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اس کو اختیار بھی دیا گیا ہے۔
یعنی قضا و قدر پر بھروسہ کر کے تمہارا عمل میں توقف کرنا یا عمل سے انکار کرنا کوئی کار آمد نہیں ہوگا اس لئے کہ احکام شارع کی جانب سے وارد ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تم کو سوچنے سمجھنے کی قابلیت اور نیکی و بدی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بھی دی گئی ہے، نیز تمہارے اندر قصد و جہد کا مادہ بھی پیدا کیا گیا ہے تاکہ تم ان اسباب کے ذریعہ عمل کر سکو، لہٰذا اب اگر تم قضا و قدر کا سہارا لے کر اسباب سے قطع نظر کرو گے اور اعمال کو چھوڑ دو گے تو تباہی و بربادی کے غار میں جا گرو گے۔ ہاں یہ اللہ کی یقینا کوئی مصلحت ہوگئی جس کی حقیقت و حکمت کو تو وہی جانتا ہے کہ ایک طرف تو اس نے قضا و قدر کے مسئلہ کو سامنے کر دیا دوسری طرف اعمال وافعال کے کرنے کا حکم دیا اور پھر اس مسئلہ میں تحقیق و تفتیش کرنے سے بھی منع فرما دیا، اور پھر قضا و قدر کے سہارے اعمال کی ضرورت سے انکار کر دیا جائے تو اس کا کیا جواب ہوگا کہ اللہ کی جانب سے شریعت کا اتارنا، احکام بھیجنا اور رسولوں کی بعثت جن کا مقصد احکام الٰہی پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا تھا بلا وجہ ہوئی کیونکہ جب محض تقدیر پر بھروسہ ہوگا کہ جس کے مقدر میں جنت میں جانا لکھا ہوگا وہ جنت میں یقینا جائے گا اور جس کے مقدر میں دوزخ لکھی ہوگی اور دوزخ میں یقینا جائے گا تو ان رسولوں کی بعثت اور احکام و اعمال کی بجا آوری کی تاکید کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی ، لہٰذا اس حیثیت سے بھی دیکھا جائے تو یہ خیال غلط ثابت ہوگا۔
بہر حال جس طرح اور بہت سے اسرار الہٰی ہیں کہ ان کی بندوں کو خبر نہیں ہے اسی طرح یہ بھی ایک راز ہے جو بندوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے، اس لئے کسی کے ظاہری عمل کو دیکھ کر اس کے جنتی یا دوزخی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا بلکہ یہ اللہ کی مرضی پر موقوف ہے کہ (ا یت یعذب من یشاء و یرحم من یشاء) ( یعنی وہ جس کو چاہے (بداعمالیوں کی بنا پر) عذاب میں مبتلا کر دے اور جس کو چاہے اپنے فضل و کرم سے بخش دے)۔