مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 78

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

راوی:

عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِحْتَجَّ اٰدَمُ وَمُوْسٰی عِنْدَ رَبِّھِمَا فَحَجَّ اٰدَمُ مُوْسٰی قَالَ مُوْسٰی اَنْتَ اٰدَمُ الَّذِیْ خَلَقَکَ اللّٰہُ بِےَدِہٖ وَنَفَخَ فِےْکَ مِنْ رُّوْحِہٖ وَاَسْجَدَ لَکَ مَلٰئِکَتَہُ وَاَسْکَنَکَ فِیْ جَنَّتِہٖ ثُمَّ اَھْبَطْتَّ النَّاسَ بِخَطِےْئَتِکَ اِلَی الْاَرْضِ قَالَ اٰدَمُ اَنْتَ مُوْسٰی الَّذِی اصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالَتِہٖ وَبِکَلَامِہٖ وَاَعْطَاکَ الْاَلْوَاحَ فِےْھَا تِبْےَانُ کُلِّ شَیْءٍ وَقَرَّ بَکَ نَجِّےًا فَبِکَمْ وَجَدتَّ اللّٰہَ کَتَبَ التَّورٰۃَ قَبْلَ اَنْ اُخْلَقَ قَالَ مُوْسٰی بِاَرْبَعِےْنَ عَامًا قَالَ اٰدَمُ فَھَلْ وَجَدْتَّ فِےْھَا وَعَصٰی اٰدَمُ رَبَّہُ فَغَوٰی قَالَ نَعَمْ قَالَ اَفتَلُوْمُنِی عَلٰی اَنْ عَمِلْتُ عَمَلًا کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیَّ اَنْ اَعْمَلَہُ قَبْلَ اَنْ ےَّخْلُقَنِیْ بِاَرْبَعِےْنَ سَنَۃً قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَحَجَّ اٰدَمُ مُوْسَی۔(صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (عالم رواح میں) آدم و موسیٰ علیہما السلام نے اپنے پروردگار کے سامنے مناظرہ کیا اور حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام پر غالب آگئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ وہی آدم ہیں جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا آپ میں اپنی روح پھونکی تھی، فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا تھا، اور اپنی جنت میں آپ کو رکھا تھا اور پھر آپ نے اپنی خطاء سے لوگوں کو زمین پر اتروا دیا تھا (یعنی اگر آپ خطا نہ کرتے تو یہاں زمین پر نہ اتارے جاتے اور آپ کی اولاد اس دنیا میں نہ پھیلتی بلکہ جنت میں رہتی) آدم علیہ السلام نے کہا تم وہی موسیٰ ہو جن کو اللہ نے اپنے منصب رسالت سے نواز کر برگزیدہ کیا اور ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرمایا تھا اور تم کو وہ تختیاں دی تھیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور پھر تم کو سر گوشی کے لئے تقرب کی عزت بخشی تھی ، اور کیا تم جانتے ہو اللہ نے میری پیدائش سے کتنے عرصہ پہلے تورات کو لکھ دیا تھا؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا " چالیس سال پہلے! آدم علیہ االسلام نے پوچھا " کیا تم نے تورات میں یہ لکھے ہوئے الفاظ نہیں پائے (ا یت وعصی آدم ربہ فغوی) (یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہوگیا۔ موسی علیہ السلام نے کہاں ہاں۔ آدم علیہ السلام نے کہا پھر تم مجھ کو میرے اس عمل پر کیوں ملامت کرتے ہو جس کو اللہ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے لئے لکھ دیا تھا،" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " اس دلیل سے ) آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غائب آگئے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جو دلیل پیش کی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے چونکہ میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے یہ لکھ دیا تھا کہ میں شیطان کے گمراہ کرنے کی وجہ سے بہک جاؤں گا اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے شجر ممنوع کا استعمال کرلوں گا۔ لہٰذا اس میں میرے کسب و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ گمراہی میرے مقدر میں لکھی گئی تھی اس لئے اس کا مجھ سے صادر ہونا لازم و ضروری تھا لہٰذا میں مورد الزام نہیں ٹھہر سکتا۔
علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس گمراہی کو میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لئے لوح محفوظ میں مقدر فرما دیا تھا جس کا ملطب یہ تھا کہ وہ ضرور بروقت وقوع پذیر ہوگی، لہٰذا جب وقت مقدر آپہنچا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ امر مقدر اور اللہ تعالیٰ کے علم کے خلاف دہ عمل ممنوع سر زد نہ ہوتا چنانچہ تم مجھ پر یہ الزام تو ڈال رہے ہو اور تمہیں سبب ظاہری یعنی میرا کسب و اختیار تو یاد رہا لیکن اصل چیز یعنی مقدر سے تم صرف نظر کر گئے۔
حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کا مناظرہ اس عالم دنیا میں نہیں ہوا جہاں اسباب سے قطع نظر درست نہیں ہے بلکہ یہ مناظرہ عالم بالا میں ان دونوں کی روجوں کے درمیان ہوا تھا۔ اسی لئے یہاں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر کوئی عاصی و گناہ گار اس قسم کی دلیل کا سہارا لینے لگے تو وہ اس کے لئے کار آمد نہیں ہوگی، کیونکہ حضرت آدم کا معاملہ اس جہاں میں تھا جہاں وہ اسباب کے مکلف نہیں تھے اور پھر ان کی یہ خطاء بارگارہ الوہیت سے معاف بھی کر دی گئی تھی، لہٰذا یہاں تو کسب و اختیار اور ابواب کی بنا پر مواخذہ ہوگا کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ پر جو تختیاں اتری تھیں وہ زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ستر اونٹوں پر لادی جاتی تھیں، ان تختیوں میں ان کی قوم کے لئے اللہ کی جانب سے احکام و مسائل لکھے ہوئے تھے، ان تختیوں میں جو مضامین مذکور تھے وہ قدیم ہیں لہٰذا چالیس سال کی تحدید ان مضامین کے بارہ میں نہیں ہوگی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ وہ مضامین جو ان تختیوں پر لکھے گئے تھے، ان کے لکھنے کی مدت آدم کی پیدائش سے چالیس سال قبل ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں