تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا
راوی:
وَعَنْ اَنَسٍ صاَنَّ رَجُلًا جَآءَ فََدَخَلَ الصَّفَّ وَقَدْ حَفَزَہُ النَّفَسُ فَقَالَ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِےْرًا طَےِّبًا مُّبَارَکًا فِےْہِ فَلَمَّا قَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلٰوتَہُ قَالَ اَےُّکُمُ الْمُتَکَلِّمُ بِالْکَلِمَاتِ فَاَرَمَّ الْقَوْمُ فَقَالَ اَیُّکُمُ الْمُتَکَلِّمُ بِالْکَلِمَاتِ فَاَرَمَّ الْقَوْمُ فَقَالَ اَےُّکُمُ الْمُتَکَلِّمُ بِھَا فَاِنَّہُ لَمْ ےَقُلْ بَاْسًا فَقَالَ رَجُلٌ جِئْتُ وَقَدْ حَفَزَنِیَ النَّفْسُ فَقُلْتُھَا فَقَالَ لَقَدْ رَاَےْتُ اثْنَیْ عَشَرَ مَلَکًا ےَّبْتَدِرُوْنَھَا اَےُّھُمْ ےَرْفَعُھَا۔ (مسلم
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ( ایک دن) ایک آدمی آیا اور نماز کی صف میں شامل ہوگیا۔ اس کا سانس چڑھا ہوا تھا اس نے کہا اللہ اکبر، الحمد اللہ حمد طیبا مبارکا فیہ (یعنی اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ایسی تعریفیں جو بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت ہیں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو پوچھا کہ تم میں سے یہ کلمات کس نے کہے تھے؟ سب لوگ (جو نماز میں حاضر تھے اس خوف سے کہ شاید ہم سے کوئی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار ہے) خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے؟ پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر (تیسری مرتبہ) فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے (اور خوف نہ کرو کیونکہ) جس نے یہ کلمات کہے تھے اس نے کوئی بری بات نہیں کی ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آیا تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا اور میں نے یہ کلمات کہے تھے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے جلدی کر رہے تھے کہ ان کلموں کو (پروردگار کی بارگاہ میں) پہلے کون لے جائے۔" (صحیح مسلم)
تشریح
اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر جو یہ کہا کہ جب میں آیا تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا اور میں نے یہ کلمات کہے تھے تو اس کا یہ کہنا بیان حقیقت اور اظہار واقعہ کے طور پر تھا۔ ان کلمات کے کہنے کے سلسلہ میں کسی عذر کا بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔