تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِےْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ اَنْ ےَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِےْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ ۔ (صحیح مسلم)
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا ہے۔ اور " فرمایا " (اس وقت) اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔" (صحیح مسلم)
تشریح
ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات اجسام ظاہری اور مادیات کی ثقاوت سے پاک ہے اس لئے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے تقدیریں لکھ دی تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ خدانے تمام مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کی تقدیریں قلم کو جاری ہونے کا حکم دے کر اس کے ذریعہ لوح محفوظ میں ثبت کردی تھیں، یا یہ کہ فرشتوں کو حکم دے کر ان سے تقدیریں لکھوادی تھیں۔
منقول ہے کہ زمین و آسمان اور تمام مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے پانی ہی پانی تھا اور کہا جاتا ہے کہ پانی کا استقرار ہوا پر تھا اور ہوا اللہ کی قدرت پر قائم تھی۔ اس لئے فرمایا گیا کہ اس عالم میں ازل سے لے کر ابد تک ہونے والے تمام واقعات و اعمال اسی وقت اللہ کے علم میں تھے۔ جب کہ یہ زمین و آسمان بھی پیدا نہیں ہوئے تھے اور اس کا عرش پانی پر تھا جس کے درمیان کوئی دوسری چیز حائل نہیں تھی۔