رفع یدین کے مسئلے حنفیہ کی مستدل احادیث و آثار
راوی:
وَعَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَےْرِثِ ص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا کَبَّرَ رَفَعَ ےَدَےْہِ حَتّٰی ےُحَاذِیَ بِھِمَا اُذُنَےْہِ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ فَقَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ حَتّٰی ےُحَاذِیَ بِھِمَا فُرُوْعَ اُذُنَےْہِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ انہیں کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر اسی طرح کرتے تھے (یعنی دونوں ہاتھ کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دونوں کو اپنے کانوں کے اوپر کی جانب لے جاتے تھے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین یعنی ہاتھوں کے اٹھانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ تمام علماء وائمہ اس بات پر متفق ہیں۔ کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے۔ تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر رفع یدین کا مسئلہ حنفیہ و شوافع کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے اور شوافع کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔
حق تو یہ ہے کہ دونوں طرف دلائل کے انبار ہیں اور احادیث و آثار کے ذخائز ہیں جن کی بنیادوں پر طرفین اپنے اپنے مسلک کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ علمائے حنفیہ نے تمام احادیث میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ان حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تو رفع یدین کرتے ہوں اور کبھی نہ کرتے ہوں، یا یہ کہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع کے لئے رفع یدین کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔
حنفیہ کے پاس اپنے مسلک کی تائید میں بہت زیادہ احادیث و آثار ہیں انہیں یہاں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ حنفی مسلک پوری طرف واضح ہو جائے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ترمذی میں دو باب قائم کئے ہیں۔ پہلا باب تو رکوع کے وقت رفع یدین کا ہے۔ اس کے ضمن میں امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث نقل کی ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔ دوسرا باب یہ ہے کہ " ہاتھ اٹھانا صرف نماز کی ابتداء کے وقت دیکھا گیا ہے" اس باب کے ضمن میں امام جامع ترمذی نے حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث جو عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ " حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ادا کرتا ہوں" چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز ادا کی اور انہوں نے صرف پہلی مرتبہ ہی (یعنی تکبر تحریمہ کے وقت) ہاتھ اٹھائے۔ اسی باب میں امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہونا ثابت کیا ہے ۔ نیز امام موصوف نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن ہے اور صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم اس کے قائل ہیں اور سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ و اہل کوفہ کا قول بھی یہی ہے۔
جامع الاصول میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو ابوداؤد و سنن نسائی کے حوالے سے اور براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو بھی ابوداؤد کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ " حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع فرماتے تھے تو (تکبیر تحریمہ کے وقت) دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے قریب تک اٹھاتے تھے اور ایسا دوبارہ نہیں کرتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں یوں کہ " پھر دوبارہ ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو جاتے تھے۔"
اس موقع پر اتنی سی بات اور سنتے چلیے کہ اس حدیث کے بارے میں ابوداؤد نے جو یہ کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ تو ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک صحیح ہونے سے مراد یہ ہو کہ اس خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہیں لہٰذا ایک خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہ ہونا اصل حدیث کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ یا پھر یہ احتمال ہے کہ ابوداؤد کا مقصد اس حدیث کو حسن ثابت کرنا ہو جیسا کہ ترمذی نے کہا ہے لہٰذا اس صورت میں کہا جائے گا تمام ائمہ و محدثین کے نزدیک حدیث حسن قابل استدلال ہوتی ہے۔
حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب" موطا " میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کو جس سے رکوع اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین ثابت ہوتا ہے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔ یہ سنت ہے کہ ہر مرتبہ جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہی جائے لیکن رفع یدین سوائے ایک مرتبہ (یعنی تحریمہ کے وقت) کے دوسرے مواقع پر نہ ہو اور یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے اور اس سلسلے میں بہت زیادہ آثار وارد ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد عاصم ابن کلیب خرمی کی ایک روایت جسے عاصم نے اپنے والد مکرم سے جو حضرت علی المرتضیٰ کے تابعین میں سے ہیں روایت نقل کی ہے کہ " حضرت علی کرم اللہ وجہہ سوائے تکبیر اولیٰ کے رفع یدین نہیں کرتے تھے۔"
عبدالعزیز ابن حکم کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ " میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے علاوہ اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کر تے تھے۔"
مجاہد کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے چنانچہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ اسود سے منقول ہے کہ " میں نے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے موقع پر رفع یدین کرتے تھے۔"
لہٰذا۔ جب حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت قرب رکھتے تھے ترک رفع یدین پر عمل کرتے تھے تو وہ عمل جو اس کے برخلاف ہے قبول کرنے کے سلسلے میں اولیٰ اور بہتر نہیں ہوگا۔
شرح ابن ہمام میں ایک روایت دار قطنی اور ابن عدی سے نقل کی گئی ہے جسے انہوں نے محمد ابن جابر سے انہوں نے حماد ابن سلیمان سے انہوں نے ابراہیم سے انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے ۔ عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہمراہ نماز پڑھی ہے چنانچہ انہوں نے سوائے تکبیر اولیٰ کے اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کیا۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما مکہ کے دارالخیاطین میں جمع ہوئے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام صاحب نے جواب دیا اس لئے کہ آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کچھ صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے! امام اوزاعی نے فرمایا کہ مجھے زہری نے حضرت سالم کی یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولیٰ کے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے ۔" حضرت امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے ان سے ابراہیم نے اور ان سے علقمہ اور اسود نے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ابتداء نماز میں دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔" یہ روایت سن کر امام اوزاعی نے کہا کہ میں نے تو زہری سے نقل کیا اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے اور آپ اس کے مقابلے میں حماد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے عقلمہ سے نقل کیا ہے یعنی میری بیان کردہ سند آپ کی بیان کردہ سند سے عالی اور افضل ہے۔
حضرت امام اعظم نے فرمایا کہ " اگر یہی بات ہے تو پھر سنو کہ حماد، زہری سے زیادہ فقیہ ہیں اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اسی طرح علقمہ بھی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں فقہ میں کم نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفافت و صحابیت کا شرف حاصل ہے ۔ نیز اسود کو بھی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اور عبداللہ تو خود عبداللہ ہیں۔ یعنی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف و توصیف کیا کی جائے کہ علم فقہ میں اپنی عظمت شان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت و صحبت کی سعادت و شرف کی وجہ سے مشہور ہیں۔"
گویا۔ امام اوزاعی نے تو اسناد کے عالی ہونے کی حیثیت سے حدیث کو ترجیح دی اور حضرت امام اعظم نے راویان حدیث کے فقیہ ہونے کے اعتبار سے حدیث کو ترجیح دی۔ چنانچہ حضرت امام اعظم کا اصول یہی ہے کہ وہ فقیہ راوی کو غیر راویوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے۔
نہایہ شرح ہدایہ میں" عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مسجد حرام میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کر رہا تھا، انہوں نے اس آدمی سے کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اختیار کیا تھا اور بعد میں اسے ترک کر دیا یعنی ان مواقع پر رفع یدین کا حکم پہلے تھا اب منسوخ ہو گیا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا تو ہم نے بھی رفع یدین کیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ترک کر دیا تو ہم نے بھی ترک کر دیا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ " عشرہ مبشرہ (یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں جنتی ہونے کی خوشخبری دی تھی) صرف ابتداء نماز ہی میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔"
حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر کا معمول نقل کرتے ہیں کہ " میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کے پیچھے سالہا سال نماز ادا کی ہے مگر میں نے اس کو سوائے ابتداء نماز کے اور کسی موقع پر رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت گزر چکی ہے۔ جس سے تینوں مواقع پر رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے اور جو شوافع کی سب سے اہم دلیل ہے۔ لہٰذا اصول حدیث کا چونکہ قاعد ہے کہ راوی کا عمل اگر خود اس کی روایت کے خلاف ہو تو روایت پر عمل نہیں کیا جاتا اس لئے حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت ساقط العمل قرار دی جائے گی۔
بہر حال۔ ان روایات وآثار سے معلوم ہوا کہ رفع یدین دونوں کے اثبات میں احادیث و آثار وارد ہیں اور صحابہ کی ایک جماعت خصوصاً حضرت عبداللہ مسعود اور ان کے تابعین رفع یدین نہ کرنے ہی کے حق میں ہیں۔ لہٰذا ۔ ان تمام موافق و مخالف احادیث کا محمول یہی ہو سکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوقات مختلفہ میں دونوں طریقے وجود میں آئے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے علم فقہ اور ان کی اسناد کا نطقہ منتہا حضرت عبداللہ ابن مسعود اور ان کے تابعین کی ذات گرامی ہے اور چونکہ ان کا رجحان عدم رفع یدین کی طرف ہے اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ کے ترک رفع یدین کے مسلک ہی کو اختیار کیا ہے اور اب تمام حنفیہ اسی مسلک کے حامی اور اس مسلک پر عامل ہیں۔
علمائے حنفیہ صرف اسی قدر نہیں کہتے بلکہ ان حضرات کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کا حکم منسوخ ہے کیونکہ جب حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں یہ ثابت ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ترک رفع یدین ہی اختیار کرتے تھے باوجود اس کے کہ رفع یدین کی حدیث کے راوی یہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تو رفع یدین کا حکم رہا ہوگا مگر بعد میں یہ حکم با وجود کثرت احادیث و آثار کے منسوخ ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مسئلے کی پوری تفصیل اپنی کتاب شرح سفر السعادۃ میں نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک رفع یدین اور عدم رفع یدین دونوں ہی سنت ہیں مگر رفع یدین نہ کرنا ہی اولیٰ اور راجح ہے البتہ دیگر علماء حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رفع یدین کا حکم اور طریقہ منسوخ ہے۔ وا اللہ اعلم۔