مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 752

نمازی کے آگے سے کتنی دوری پر گزرنا چاہئے

راوی:

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا صَلَّی اَحَدُ کُمْ اِلٰی غَیْرِ السُّتْرَۃِ فَاِنَّہُ یَقْطَعُ صَلَاتَۃُ الْحِمَارُوَالْخِنْزِیْرُ وَالیَھُوْدِیُّ وَ المَجُوْسِیُّ وَالْمَرْأَۃُ وَتُجْزِیئٍ عَنْہُ اِذَا مَرُوْا بَیْنَ یَدَیْہِ عَلَی قَذْفَۃٍ بِحَجَرٍ۔ (رواہ ابوداؤد)

" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم میں سے جو آدمی بغیر سترے کے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز اس کے سامنے سے گدھے ، خنز یر، یہودی ، مجوسی اور عورت کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی ہاں اگر یہ ایک پتھر پھینکنے کی مسافت کے فاصلے سے گزریں تو کچھ حرج نہیں۔" (ابوداؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ پھینکنے کے بعد پتھر جتنی دور جا کر گرتا ہے اتنے فاصلے کے بعد سے یہ مذکورہ چیزیں اگر نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزریں تو کچھ حرج نہیں ہے یعنی نماز میں کوئی خلل و قصور نہیں آتا ۔
علماء نے لکھا ہے کہ پھتر پھینکنے سے مراد حج میں رمی جمار ہے یعنی حج میں مناروں پر جو کنکر اور جس فاصلے سے مارے جاتے ہیں اور جس کی مقدار تین ہاتھ لکھی ہے وہی یہاں مراد ہے۔
اس حدیث کی تاویل بھی وہی ہوگی جو اسی باب کی حدیث نمبر سات کی تشریح کے ضمن میں کی جا چکی ہے کہ نماز ٹوٹنے سے کیا مراد ہے؟۔

یہ حدیث شیئر کریں