مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 75

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

راوی:

تقدیر پر ایمان لانا فرض اور لازم ہے یعنی وجود ایمان کے لئے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ بندوں کے تمام اعمال خواہ وہ نیک ہوں یا بد، ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھ دیئے گئے ہیں، بندہ سے جو عمل بھی سر زد ہوتا ہے وہ اللہ کے علم و اندازہ کے مطابق ہوتا ہے، لیکن اللہ نے انسان کو عقل و دانش کی دولت سے نواز کر اس کے سامنے نیکی اور بدی دونوں راستے واضح کر دیئے ہیں اور ان پر چلنے کا اختیار دے دیا اور بتا دیا کہ اگر نیکی کے (راستہ کو) اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہوگا جس پر جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے اور اگر بدی کے راستہ کو اختیار کرو گے تو یہ اللہ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا باعث ہوگا جس کی وجہ سے سزا اور عذاب کے مستحق گردانے جاؤ گے۔ اب اس واضح اور صاف ہدایت کے بعد جو آدمی نیکی و بھلائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ ازراہ فضل و کرم اللہ کی رحمت سے نوازا جائے گا اور اس پر اللہ کی جانب سے فلاح و سعادت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اگر کوئی عقل کا اندھا اپنے کسب و اختیار سے برائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ ازراہ عدل سزا کا مستوجب ہوگا اور اسے عذاب و تباہی کے غار دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تقدیر کا مسئلہ عقل و فکر کی رسائی سے باہر ہے کیونکہ یہ اللہ کا ایسا ایک راز ہے جس کا انسانی عقل میں آنا تو درکنار اسے نہ تو کسی مقرب فرشتہ پر ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا بھید کسی پیغمبر اور رسول کو معلوم ہے۔ اس لئے اس مسئلہ میں زیادہ غور و فکر کرنا اور اس میدان میں عقل کے گھوڑے دوڑانا جائز نہیں ہے بلکہ تحقیق و جستجو کے تمام راستوں سے ہٹ کر صرف یہ اعتقاد رکھنا ہی فلاح و سعادت کا ضامن ہے کہ اللہ نے یہ مخلوق پیدا کر کے ان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے، ایک گروہ وہ ہے جو اچھے اعمال اور نیک کام کرنے کی بنا پر اللہ کی جنت اور اس کی نعمتوں کا مستحق ہوگا جو محض اس کا فضل و کرم ہوگا۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جو برے اعمال کرنے کی وجہ سے دوزخ میں ڈالا جائے گا جو عین عدل ہوگا۔ منقول ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے قضا وقدر کے بارہ میں سوال کیا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " یہ ایک بڑا راستہ ہے اس پر نہ چلو" اس آدمی نے " پھر یہی سوال کیا " " انہوں نے فرمایا " یہ ایک گہرا دریا ہے ، اس میں نہ اترو وہ آدمی نہ مانا اور اس نے پھر سوال کیا۔ آخر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یہ اللہ کا ایک راز ہے جو تم سے پوشیدہ ہے اس لئے اس کی تفتیش و تحقیق میں مت پڑو" ۔ لہٰذا اخروی سعادت اسی میں ہے کہ اس مسئلہ کے بارہ میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے اور جن اعتقادات کو ماننے کے لئے کہا ہے اس پر عمل پیرا ہو جائے، ورنہ اپنی عقل کے تیر چلانا درحقیقت گمراہی کا راستہ اختیار کرنا اور تباہی و بربادی کی راہ پر لگنا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں