مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 744

عصا کو سترے کے طور پر گاڑنے کے بجائے سامنے رکھ لینے میں علماء کا اختلاف

راوی:

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا صَلَّی اَحَدُکُمْ فَلْیَجْعَلْ تِلْقَاءَ وَجْھِہٖ شَیْئًا فَإِنْ لَّمْ یَجِدْ فَلْیَنْصِبْ عَصَاہُ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ مَعَہ، عَصًا فَلْیَخْطُطْ خَطًا ثُمَّ لَا یَضُرُّہُ مَا مُرَّاَمَامَہ،۔ (رواہ ابوداؤد و وابن ماجۃ)

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنا چاہے تو اپنے منہ کے سامنے کچھ (مثلاً دیوار و ستون وغیرہ) کر لے اور اگر کچھ نہ ملے تو اپنا عصا (ہی) کھڑا کر لیا کرے اور اگر اس کے پاس عصا بھی نہ ہو تو ایک لکیر ہی کھینچ لیا کرے پھر اس کے آگے سے کوئی گزر جائے تو کچھ نقصان نہ ہوگا (یعنی خشوع و خضوع میں خلل نہیں پڑے گا۔ " ( سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
یہ حدیث اس بات کی اجازت دے رہی ہے کہ اگر کسی نمازی کو کوئی ایسی چیز دستیاب نہ ہو جو سترے کے طور پر کام دے سکے تو وہ اپنے عصا کو اپنے سامنے سترہ بنا کر کھڑا کر لے۔ اب اس سلسلہ میں اتنی اور سہولت دی گئی ہے کہ اگر زمین نرم ہو تو عصا کو زمین میں گاڑ دیا جائے اور اگر زمین سخت ہو کہ عصا کو گاڑنا مشکل ہو تو پھر اس شکل میں عصا کو گاڑنے کی بجائے اپنے سامنے طولا رکھ لیا جوے تاکہ گاڑنے کی مشابہت حاصل ہو جائے۔
فقہ کی کتاب شرح منبہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی اپنے عصا کو سترے کے طور پر بجائے زمین میں گاڑنے کے اپنے سامنے رکھ لے تو بعض علماء کے نزدیک تو اس کے لئے یہ سترے کے طور پر کافی ہو جائے گا۔ یعنی سترے کا حکم پورا ہو جائے گا مگر بعض علماء کے نزدیک یہ سترے کے طور پر کافی نہیں ہوگا۔
کفایہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی سترے کے طور پر عصا کو بجائے گاڑنے کے سامنے رکھنا چاہئے تو اسے عصا کو طولاً رکھنا چاہئے نہ کہ عر ضا۔

سترے کے لئے کوئی بھی چیز موجود نہ ہونے کی شکل میں سامنے صرف لکیر کھینچ لینے میں علماء کا اختلاف :
اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہو رہی ہے کہ اگر کسی نمازی کو سترہ بنانے کے لئے کوئی چیز نہ ملے یہاں تک کہ اس کے پاس عصا بھی نہ ہو تو وہ اپنے سامنے صرف لکیر کھنیچ کر نماز پڑھ لے اس کے لئے یہی لکیر سترہ بن جائے گی۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول قدیم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے بلکہ حنفیہ میں بھی بعد کے بعض علماء نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔
حنفیہ کے اکثر علماء اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے قائل نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک لکیر کھینچ لینا معتبر نہیں ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی قول جدید میں اپنے پہلے مسلک کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلہ میں جو حدیث وارد ہے وہ ضعیف اور مضطرب ہے۔ نیز یہ کہ نمازی اور سامنے سے گزرنے والے کے درمیان سترے کے طور پر صرف لکیر کا حائل ہونا نہ صرف یہ کہ کوئی اعتبار نہیں رکھتا بلکہ دور سے معلوم و ممیز بھی نہیں ہوتا۔ صاحب ہدایہ (رحمۃ اللہ ) علیہ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ حضرت شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کا مفہوم بھی یہی ہے کہ لکیر کھینچنے کے بجائے سترہ کھڑا کرنا ہی اتباع سنت کی بناء پر اولی اور بہتر ہے کیونکہ سامنے کھڑا ہوا سترہ پوری طرح ظاہر ہونے کی وجہ سے امتیاذ بھی رکھتا ہے اور نمازی کے دل کو شک و شبہات سے نکال کر سکون خاطر اور اطمینان قلب کا باعث ہوتا ہے۔
اس کے بعد علماء نے وصف خط میں بھی اختلاف کیا ہے کہ لکیر کس طرح کھینچی جائے چنانچہ بعض علماء کے نزدیک لکیر بشکل ہلال کھینچنی چاہئے اور بعض حضرات نے جانب قبلہ طولاً کھینچنے کو لکھا ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ لکیر عرضاً دائیں طرف سے بائیں طرف کو کھینچی جائے اور مختار طولاً ہی کھنیچنا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں