مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 740

سترے اور نمازی کے درمیان سے گزرنے والے کو زبردستی روکنے کا حکم

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ اِلٰی شَیْ ءٍ ےَّسْتُرُہُ مِنَ النَّاسِ فَاَرَادَ اَحَدٌ اَنْ ےَّجْتَازَ بَےْنَ ےَدَےْہِ فَلْےَدْفَعْہُ فَاِنْ اَبٰی فَلْےُقَاتِلْہُ فَاِنَّمَا ھُوَ شَےْطَانٌ ھٰذَا لَفْظُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ مَعْنَاہُ۔

" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی کسی ایسی چیز (یعنی سترے ) کی طرف نماز پڑھے جو اس کے اور لوگوں درمیان حائل رہے اور کوئی آدمی اس کے آگے سے (یعنی نمازی اور سترے کے درمیان) سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے روک دینا چاہئے اگر وہ نہ مانے تو اسے قتل کر دینا چاہئے کیونکہ وہ ( ایسی صورت میں) شیطان ہے۔ (حدیث کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں اور مسلم نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے)۔"

تشریح
" قتل" کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حقیقۃً ایسے آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہئے بلکہ قتل سے مراد یہ ہے کہ چونکہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت برا ہے اس لئے اگر کوئی آدمی نمازی کے آگے سے گزرنا چاہے تو اسے پوری طاقت و قوت کے ساتھ گزرنے سے روک کر اسے اتنی بڑی غلطی کے ارتکاب سے بچایا جائے۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کو کسی ایسی چیز کے ذریعے روکا جائے جس کا استعمال اس روکنے کے سلسلے میں جائز ہو اور اس روک تھام میں اگر گزرنے ولا آدمی مر جائے تو علماء کے نزدیک متفقہ طور پر اس کا قصاص نہیں ہوگا۔ ہاں دیت کے واجب ہونے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ ایسی شکل میں دیت واجب ہوگی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ واجب نہیں ہوگی۔
حدیث میں ایسے آدمی کو شیطان کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے چونکہ اس آدمی کو بہکا کر اس غلط کام کو کرنے پر مجبور کیا لہٰذا وہ آدمی اس شیطانی کام کرنے کی بناء پر بمنزلہ شیطان کے ہوا۔
یا اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا غلط کام کرنے والا آدمی انسانوں کا شیطان ہے اس لئے کہ شیطان کے معنی سر کش کے ہیں خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے ہو اسی لئے شریر النفس آدمی کو شیطان انس کہا جاتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں