مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 702

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِی اُمَامَۃَ قَالَ اِنَّ حِبْرًا مِّنَ الْیَھُوْدِ سَئَالً النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ البُقَاعِ خَیْرٌ فَسَکَتَ عَنْہُ وَقَالَ اَسْکُتُ حَتّٰی یَجِئَ جِبْرِیْلُ فَسَکَتْ وَجَآءَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَسَئَالَ فَقَالَ مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَ عْلَمَ مِنَ السَّائِلِ وَلٰکِنْ اَسْئَلُ رَبِّی تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی ثُمَّ قَالَ جِبْرِیْلُ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی دَنَوْتُ مِنَ اﷲِ دُنُوًّمَا دَنَّوْتُ مِنْہُ قَطُّ قَالَ وَ کَیْفَ کَانَ یَا جِبْرِیْلُ قَالَ کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ سَبْعُوْنَ اَلْفَ حِجَابٍ مِنْ نُّوْرٍ فَقَالَ شَرُّا لْبِقَاعِ اَسْوَاْقُھَا وَ خَیْرُ البِقَاعِ مَسَاجِدُھَا رَوَاہُ حَبَّانُ فِی صَحِیْحِہٖ عَنْ اِبْنِ عُمَرَ۔

" اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ایک یہودی عالم نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بہترین جگہ کون سی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں خاموش رہے اور فرمایا کہ جب تک جبرائیل علیہ السلام نہیں آجائیں گے میں خاموش رہوں گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ جب حضرت جبرائیل آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (یہودی عالم کے سوال کا جواب ) پوچھا حضرت جبرائیل نے کہا کہ ، اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میں بھی نہیں جانتا، البتہ میں اپنے پروردگار بزرگ و برتر سے اس کے بارے میں پوچھوں گا (چنانچہ) پھر حضرت جبرائیل (نے آکر) فرمایا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! آج میں اللہ تعالیٰ سے اس قدر قریب ہو گیا تھا کہ کبھی بھی اتنا قریب نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جبرائیل کس قدر (فاصلہ دونوں کے درمیان رہ گیا تھا) حضرت جبرائیل نے فرمایا میرے اور اللہ کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے باقی رہ گئے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے (اس سوال کے جواب میں) فرمایا: کہ بد ترین مقامات بازار ہیں اور بہترین مقامات مساجد ہیں۔ (یہ روایت ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے۔"

تشریح
یہ " پردے" مخلوق کی نسبت سے ہیں حق تعالیٰ جل شانہ کی نسبت سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ وند قدوس پردے میں نہیں ہے بلکہ اللہ کی مخلوق پردے میں ہے اور جسمانی و نفسانی پردے ہیں اس کی مثال کسی اندھے کے لئے پردہ آفتاب کی سی ہے کہ جس طرح آفتاب پردے میں نہیں ہوتا بلکہ خود اندھے پر پردہ پڑا ہوا ہوتا ہے کہ وہ آفتاب کو نہیں دیکھ سکتا اور آفتاب اس کو دیکھتا ہے یعنی اس پر اپنی روشنی ڈالتا ہے۔
سائل نے تو صرف " بہتر جگہ" کے بارہ میں سوال کیا تھا لیکن جواب میں مقابلے کے طور بہترین اور بدترین دونوں مقامات کو بتلا دیا گیا تاکہ رحمان اور شیطان دونوں کے گھر معلوم ہو جائیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی آدمی سے کوئی ایسا مسئلہ دریافت کیا گیا جو اسے پوری طرح معلوم نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ جواب دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ جس کے بارے میں جانتا ہو کہ وہ اس سوال کا جواب اچھی طرح جانتا ہے اس سے پوچھ لے اور اپنے سے زیادہ علم والے سے پوچھنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرے کوینکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی سنت ہے ۔ مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے کیونکہ مصنف مشکوٰۃ کو اس کتاب کا نام معلوم نہیں تھا جس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے بعد میں بعض علماء نے کتاب کا مذکورہ نام لکھا دیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں