مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 693

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

راوی:

وَعَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْحُسَیْنِ عَنْ جَدَّتِھَا فَاطِمَۃِ الْکُبْرٰی قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ صَلَّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ وَقَالَ رَبِّ اغْفِرْلِی ذُنُوْبِی وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَاِذَا خَرَجَ صَلَی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمْ وَقَالَ رَبِّ اغْفِرْلِی ذُنُوْبِی وَافْتَحْ لِی اَبْوَابَ فَضْلِکَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَاَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَۃَ وَفِیْ رِوَایَتِھِمَا قَالَتْ اِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَکَذَاِذَا خَرَجَ قَالَ بِسْمِ اﷲِ وَالسَّلَامُ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ بَدَلَ صَلَی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ لَیْسَ اِسْنَادُہ، بِمُتَّصِلٍ وَ فَاطِمَۃُ بِنْتِ الْحُسَیْنِ لَمْ تُدْرِکْ فَاطِمَۃُ الْکُبْرٰی۔

" اور حضرت فاطمہ بنت حسین ابن علی المرتضیٰ اپنی دادی فاطمہ کبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (زہرا) سے روایت کرتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں تشریف لاتے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے، یعنی یہ الفاظ فرماتے صلی اللہ علی محمد یا فرماتے اَللَّھُمَّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ اور پھر یہ دعا پڑھتے رَبِّ اغْفَرْلِیْ ذَنُوْبِیْ وَاَفْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ یعنی اے میرے پروردگار، میرے گناہ بخش دے اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب مسجد سے باہر آتے تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیج کر یہ دعا پڑھتے۔ رَبِّ اغْفَرْلِیْ ذَنُوْبِیْ وَاَفْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ یعنی اے میرے پروردگا! میرے گناہ بخش دے اور میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔ یہ روایت ترمذی ، احمد ، ابن ماجہ نے نقل کی ہے اور احمد بن حنبل و ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے اور اسی طرح جب باہر نکلتے تو صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ کے بجائے یہ الفاظ فرماتے بسم اللہ والسلام علی رسول اللہ یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں اور نکلتا ہوں اور سلامتی ہو رسول پر۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دختر فاطمہ رحمہا اللہ تعالیٰ علیہا نے حضرت فاطمہ کبری بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا اور ان سے نہیں ملی ۔"

تشریح

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود و سلام وغیرہ کے الفاظ اس طرح نہیں فرمائے کہ اللَّھُمَّ صِلِّ عَلٰی یَا اَغْفِرْلَمُحَمَّدٍ کیونکہ درود و سلام کے ساتھ اسم شریف کو مناسبت ہے اسی طرح رَبِّ اغْفِرْلِیْ ارشاد فرمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے یا پھر کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ امت کی تعلیم کے لئے فرمائے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ درود و سلام کن الفاظ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔
فاطمہ صغری جو اس حدیث کی راوی اور حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں انہوں نے اپنی دادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا کیونکہ ان کے وقت میں حضرت امام حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی لہٰذا اس حدیث کی سند متصل نہیں ہوئی کیونکہ درمیان کا ایک راوی متروک ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں