مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
راوی:
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ قَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ائْذَنْ لَنَا فِی الْاِخْتِصَاءِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَصَی وَلَا اَخْتَصَی اِنَّ خِصَاءَ اُمَّتِ الصِّیَامُ فَقَالَ ائْذَنُ لَنَا فِی السِّیَاحَۃِ فَقَالَ اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِی سَبِیْلِ اﷲِ فَقَالَ اَئْذَنْ لَنَا فِی التَّرَھُّبِ فَقَالَ اِنَّ تَرَھُّبَّ اُمَّتِی الْجُلُوْسُ فِی الْمَسَاجِدِ اِنْتِظَارَ الصَّلَاۃِ۔ (رواہ فی شرح السنۃ)
" اور حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی عثمان بن مظعون اور کنیت ابوسائب ہے۔ جلیل القدر صحابی اور چودھویں مرد مسلمان ہیں۔ ہجرت حبشہ میں وہ اور ان کے صاحبزادے سائب شامل ہے اور ہجرت مدینہ میں شریک ہوئے مہاجرین میں سے پہلے صحابی ہیں جنہوں نے مدینہ میں ٢ھ میں وفات پائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی نعش کو بوسہ دیا تھا ) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! مجھ کو خصی (نامرد) ہونے کی اجازت دیجئے (تاکہ زنا میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ آدمی ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہماری سنت کے راستے سے ہٹا ہوا ہے) جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی ہو جائے (بلکہ) میری امت کے لئے خصی ہونا روزہ رکھنا ہے (کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت جاتی رہتی ہے) حضرت عثمان نے عرض کیا کہ پھر مجھے سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت کی سیاحی یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اچھا تو پھر مجھے راہب بننے کی اجازت دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کا راہب بننا یہی ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے۔ " (شرح النسۃ)
تشریح
حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش یہ تھی کہ وہ ایسے طریقے اختیار کریں کہ جس سے دنیا کی لذتوں، نفسانی خواہشات اور شیطانی حرکات میں نہ مبتلا ہو سکیں تاکہ اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو، چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ اپنی قوت مردانگی کو ختم کر کے بالکل نامرد بن جائیں تاکہ زنا جیسے بڑے گناہ میں ملوث ہونے کا خدشہ نہ رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس خواہش کو انسانی فطرت اور اسلامی روح کے منافی سمجھتے ہوئے انہیں اس فعل سے باز رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو کہ نفسانی خواہشات ختم ہو جائیں اور روحانی و عرفانی جذبات غالب رہیں تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ روزہ رکھا کرو کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے اور تعلق مع اللہ کے جذبات کو جلا بخشتا ہے۔ پھر انہوں نے سیر و سیاحت کی اجازت طلب کی تاکہ اس مشغلے سے نفسانی خواہشات میں کمی آجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا صرف جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے، محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا جیسا کہ بعض فقیر قسم کے لوگ کرتے ہیں عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے راہب بن جانے کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ اہل کتاب میں وہ لوگ جو دیندار اور مذہبی قسم کے ہوتے ہیں دنیاوی علائق سے گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں اور مشغولیات کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ نہ عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور نہ دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس خواہش کو بھی رد کر دیا کیونکہ رہبانیت اہل کتاب کا شیوہ ہے یہ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی فطرت کے بالکل منافی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہماری امت میں رہبانیت صرف اسی قدر ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے کیونکہ اس طرح تمام لوگوں اور دنیا کی تمام چیزوں سے منہ پھیر کر پروردگار کی طرف توجہ ہوتی ہے اور اس پر بے شمار اجر و انعام ملتے ہیں اس کے مقابلے میں اہل کتاب کی جو رہبانیت ہے وہ بالکل بے فائدہ اور بے کار محض ہے کہ اس کا انجام دینی اور دنیوی اعتبار سے اچھا نہیں ہوتا۔