مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 676

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

راوی:

وَعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فِیْ مَرْضِہِ الَّذِیْ لَمْ ےَقُمْ مِنْہُ لَعَنَ اللّٰہُ الْےَھُوْدَ وَالنَّصَارَی اِتَّخَذُوْا قُبُورَ اَنْبِےَآءِ ھِمْ مَسَاجِدَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیماری میں جس سے اٹھ نہ سکے (یعنی مرض وفات میں ) فرمایا ۔ عیسائیوں اور یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انیباء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا ہے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیمانہ حیات جب لبریز ہونے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہو گیا کہ اب اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوف سے کہ مبادا میری امت کے لوگ بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنائیں اس فعل شنیع کی ممانعت کا اظہار یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرتے ہوئے فرمایا کیونکہ ان امتوں کے لوگ اپنے انبیاء کی کرام قبروں پر سجدہ کیا کرتے ہیں۔
قبروں کو سجدہ گاہ بنانا دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ صاحب قبر یا محض اپنی قبر کی عبادت و پرستش کے مقصد سے قبروں پر سجدہ کیا جائے جیسا کہ بت پرست بتوں کو پوجتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سجدہ تو قبر کو کیا جائے مگر اس سے مقصد اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت و پرستش ہو اور یہ اعتقاد ہو کہ اس طرح قبر کی طرف نماز پڑھنا اور سجدہ کرنا درحقیقت پروردگار حقیقی کی عبادت کرنا ہے اور یہ کہ اس طریقے سے پروردگار کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور اس کا قرب میسر ہوتا ہے۔ یہ دونوں طریقے غیر مشروع اور اللہ و رسول کی نظر میں نا پسندیدہ ہیں۔ پہلا طریقہ تو صریحا کفر و شرک ہے۔ دوسرا طریقہ بھی حرام ہے کیونکہ اس میں اللہ کی پرستش و عبادت میں دوسرے کو شریک کرنا لازم آتا ہے اگرچہ شرک خفی ہے یہ دونوں طریقے اللہ کی لعنت کا سبب ہیں۔
یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ نبی کی قبر یا کسی بزرگ و ولی کی قبر کی طرف ازراہ بزرگ و تعظیم نماز پڑھنا حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں