مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قَامَ اَحَدُکُمْ اِلَی الصَّلوٰۃِ فَلَا ےَبْصُقْ اَمَامَہُ فَاِنَّمَا ےُنَاجِی اللّٰہَ مَادَامَ فِیْ مُصَلَّاہُ وَلَاعَنْ ےَمِےْنِہٖ فَاِنَّ عَنْ ےَّمِےْنِہٖ مَلَکًا وَّلْےَبْصُقْ عَنْ ےَّسَارِہٖ اَوْ تَحْتَ قَدَمَےْہِ فَےَدْفِنُھَا وَفِیْ رَوَاےَۃٍ اَبِیْ سَعِےْدٍ تَحْتَ قَدَمِہِ الْےُسْرٰی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے اس لئے کہ وہ جب تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے اور اسے اپنے دائیں طرف بھی نہیں تھوکنا چاہیے کیونکہ دائیں طرف ایک فرشتہ ہوتا ہے ہاں بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوک لے اور پھر اسے زمین میں دبا دے۔ ابوسعید کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ بلکہ اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک لے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں نمازی کو اس آدمی سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے مالک کے سامنے کھڑا ہو کر اس سے سر گوشی کرتا ہے لہٰذا جس طرح اس موقع پر وہ آدمی اپنے مالک کی عزت احترام کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتا ہے اسی طرح نمازی کے لئے بھی واجب ہے کہ جب وہ اپنے پروردگار حقیقی کے سامنے نماز کے لئے کھڑا ہو تو حضوری کے تمام شرائط و آداب کو پورار پورا خیال رکھے۔ اور اس سلسلے میں ایک اہم ادب یہ ہے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے ، گو رب قدوس کی ذات پاک جہت و سمت کی قیود سے پاک ہے تاہم سامنے نہ تھوکنے کی قید لگا کر آداب حضوری کے راستے سے روشناس کرایا جا رہا ہے کہ پروردگار عالم کے دربار میں حاضری کے وقت ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ جو رب ذوالجلال کی شان و عظمت و کبریائی کی منافی ہو۔
" فرشتے" سے مراد یا کراما کا تبین کے علاوہ وہ فرشتہ ہے جو خاص طور پر نماز کے وقت نمازی کی تائید اور اس کی رہبری اور اس کی دعا پر آمین کہنے کے لئے حاضر ہوتا ہے لہٰذا نمازی پر واجب ہے کہ اس فرشتے کی مہمانی کا خیال کرتے ہوئے کراماکا تبین سے زیادہ اس کا اکرام و احترام کرے کیونکہ کراما کا تبین تو ہر وقت ہی ساتھ رہتے ہیں اور اس کے اکرام و احترام کی شکل یہی ہو سکتی ہے کہ دوران نماز اپنی دائیں طرف نہ تھوکے کہ یہ فرشتہ اسی سمت رہتا ہے۔
یا پھر" فرشتے" سے مراد کراماً کا تبین ہے کہ اس صورت میں کہ کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دائیں طرف تھوکنے سے اس لئے منع فرمایا تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ دائیں طرف کا فرشتہ جو بندے کے نیک اعمال لکھنے پر مقرر ہے بائیں طرف کے فرشتے سے جو بندہ کے برے اعمال لکھنے پر متعین ہے رتبے کے اعتبار سے زیادہ افضل ہے جس طرح کہ دائیں سمت بائیں سمت سے افضل ہوتی ہے یا رحمت کا فرشتے عذاب کے فرشتہ سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔